1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسیحی جوڑے کا قتل- تحقیقات شروع

5 نومبر 2014

لاہور سے ساٹھ کلومیٹر دور ضلع قصور کے علاقے کوٹ رادھاکشن کے قریبی گاؤں میں ایک مسیحی جوڑے کو جلا دینے کے واقعے کی اعلی سطحی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں

تصویر: Pavel Rahman/AP/dapd

پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ضلع قصور کے ڈسٹرکٹ کارڈینیشن آفیسر عدنان اشرف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی تحقیقات کے حوالے سے کوئی حتمی بیان جاری کرنا مناسب نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلی پنجاب کی طرف سے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی تین رکنی کمیٹی کے ارکان اب بھی متاثرہ علاقے میں موجود ہیں اور وہ اس واقعے کے حوالے سے معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔ تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے بدھ کے روز متعلقہ بھٹے کا دورہ بھی کیا اور کئی لوگوں کے بیانات بھی قلمبند کیے۔

ڈی سی او قصور نے بتایا کہ ملزمان کے خلاف قتل، دہشت گردی اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے چوالیس افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ وزیراعلی پنجاب کے دفتر میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کہ توقع ہے کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ اگلے چوبیس گھنٹوں میں تیار کر لی جائے گی۔ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے پینتیس سالہ شہزاد مسیحی اور اس کی 31 سالہ اہلیہ شمع بی بی کو سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔

تصویر: Christoph Kober

اسسٹنٹ کمشنر کوٹ رادھا کشن سرمد تیمور نے بتایا کہ اس وقت علاقے میں صورتحال کنٹرول میں ہے۔ ان کے بقول تمام سرکاری افسران یہاں موجود ہیں اور پولیس کی بھاری نفری بھی یہاں تعینات کر دی گئی ہے۔ ان کے بقول انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

علاقے کے لوگوں میں اس حوالے سے متفرق آرا پائی جا رہی ہیں۔ عثمان نامی ایک نوجوان سمیت بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مقدس اوراق کی بے حرمتی کے بعد مشتعل دیہاتیوں نے مسیحی جوڑے کو تشدد کا نشانہ بنا کو زندہ جلا ڈالا۔ متعلقہ بھٹے پر موجود پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کے سربراہ محبوب خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس واقعے کی کچھ دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ ہلاک ہو جانے والے مسیحی جوڑے کے رشتہ داروں کا موقف یہ ہے کہ اس واردات میں رقم کے لین دین میں ملوث بھٹہ مالک کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ رات گئے جاری ہونے والے ایک بیان میں انسانی حقوق کے پاکستانی کمیشن نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جائے واردات سے مقدس اوراق کی توہین کے شواہد نہیں ملے ہیں۔

اس وقت تمام علاقے میں پولیس کی بھاری نفری دکھائی دے رہی ہے۔ مقامی رہائشیوں کی بڑی تعداد یہاں سے دیگر علاقوں میں منتقل ہو چکی ہے۔ مسیحی برادری کے مقامی گاؤں کلارک آباد میں ابھی تک خوف و ہراس موجود ہے۔ لاہور میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور مسیحی تنظیموں نے اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کے لیے موثر اقدامات کرے۔

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اس واقعے پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ذمہ دار ریاست میں ازخود سزا کا تصور ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے اس واقعے کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب کو ہدایت کی کہ اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔

اس واقعے نے ملک بھر میں موجود مسیحی برادری کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ ادھر پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب میں سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک کے جنم دن کی سالانہ تقریب میں شریک غیر ملکی سکھوں اور ہندوؤں کی حفاظت کے لیے کیے گیے انتظامات مزید سخت کر دیے گئے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں