مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی بیٹیاں خوف کے سائےتلے
2 اکتوبر 2016ایشام اور ایشا لاہورکی سڑکوں پر گھومنے سےاجتناب برتتی ہیں۔ ان کی والدہ آسیہ بی بی گزشتہ چھ برسوں سے جیل میں ہیں، جس کی وجہ ان پر توہین مذہب کا وہ الزام ہے جس کی وہ تردید کرتی ہیں۔ تاہم آسیہ بی بی کا کیس خاصا ’ہائی پروفائل‘ ہے۔ وہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کی علامت کے ساتھ ساتھ مذہبی جنونیوں کے غیض و غضب کا نشانہ بھی ہیں۔
ایشام اور ایشا کو بہرحال یہ امید ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی والدہ کے حق میں کوئی فیصلہ آ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ اس ماہ آسیہ بی بی کے مقدمے کی ایک بار پھر سماعت کرے گی۔
والدہ کی آزادی کے لیے جدوجہد ایشام کو روم میں ویٹیکن تک لےگئی تھی۔ اپریل کے مہینےمیں وہاں ان کی ملاقات پاپائے روم پوپ فرانسس سے بھی ہوئی جہاں پوپ نے آسیہ بی بی کی سلامتی کےلیے دعائیں بھی کیں۔ اس بارے میں اٹھارہ سالہ ایشام کا کہنا ہے، ’’پوپ نے مجھے دعائیں دیں۔ اس سے زیادہ مجھے یاد نہیں ہے۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں: ’’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پوپ میری والدہ کے لیے اب بھی دعا کر رہے ہیں، اور ان کی دعاؤں سے اماں کوآزادی مل ہی جائےگی۔‘‘
ایشام اور ایشا مہینے میں دو بار ملتان شہر جاتی ہیں جہاں ایک جیل میں ان کی والدہ کو قید رکھا گیا ہے۔ ایشام کہتی ہیں، ’’ہم ان کوگھر کے حالات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ہمارے درمیان ماں بیٹی کی طرح کی گفت گو ہوتی ہے۔‘‘
تاہم یہ ملاقات دکھ سے بھری بھی ہوتی ہے۔ ’’وہ اداس ہو جاتی ہیں۔ ان کی بیٹیاں اتنی دورسےسفرکر کے ان سے ملنے آتی ہیں مگر وہ ان کو گلے بھی نہیں لگا سکتیں۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آسیہ بی بی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس واچ ڈاگ ادارے کے ایشیائی ڈائریکٹر ڈیوڈ گریفیفس نے کہا ہے کہ اولین تو اس خاتون کو سزا نہیں دینا چاہیے تھی۔ اے ایف پی کو جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے مزید کہا، ’’آسیہ بی بی کے مقدمے کی شفافیت کے بارے میں تحفظات ظاہر کیے جاتے ہیں۔ سزائے موت کے انتظار میں اس خاتون کی قید تنہائی مبینہ طور پر ان کی ذہنی اور جسمانی صحت میں بگاڑ پیدا کر رہی ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے ادارے پاکستان میں توہین رسالت و مذہب کے سخت قوانین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں اکثر اوقات ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے اس متنازعہ قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔
توہینِ رسالت کے متنازعہ قانون کے حوالے سے چند حقائق
۔ سن 1927 میں برطانوی راج کے وقت انگریزوں نے برصغیر میں دانستہ طور پر مذاہب کی توہین کو جرم قرار دیا تھا تاہم اس قانون میں مختلف مذاہب میں تفریق نہیں کی گئی تھی۔
۔ انگریزوں کے بنائے گئے اس قانون کو پاکستان بننے کے بعد بھی قائم رکھا گیا۔
۔ پاکستان کے سابق فوجی آمر اور صدر جنرل محمّد ضیا الحق نے1977ء میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد اس قانون میں کئی اضافے کیے، جن میں سے ایک مسلمانوں کی مقدّس کتاب قرآن کی توہین کرنے پر عمر قید کی سزا رکھی گئی تھی۔
۔ سن 1984 میں احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد پر خود کو مسلمان کہنے پر پابندی عائد کردی گئی اور ایسا کہنے والے کے لیے تین برس کے لیے جیل کی سزا مقرر کی گئی۔
۔ سن 1986 میں ضیا الحق نے توہینِ رسالت کرنے والے افراد کے لیے موت کی سزا اس قانون میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی، جسے بعد ازاں 1992ء میں نواز شریف کی حکومت نے ایک قرارداد کے ذریعے منظور کر لیا۔
۔ سن 1927 سے لے کر سن 1985 تک متحدہ ہندوستان اور پاکستان میں توہینِ مذاہب سے متعلق دس مقدمے درج کیے گئے، جب کہ سن 1985 سے اب تک عدالتیں اس حوالے سے چار ہزار سے زیادہ مقدموں کی سماعت کر چکی ہیں۔
۔ آسیہ بی بی نامی مسیحی خاتون کو پنجاب کی ایک عدالت نے توہینِ رسالت کے الزام میں نومبر سن 2010 میں سزائے موت سنائی۔
۔ پانچ جنوری سن 2011 کو اسلام آباد میں پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو آسیہ بی بی کی حمایت کرنے اور توہینِ رسالت میں ترمیم کے مطالبے کی پاداش میں انہی کے محافظ نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔
۔ دو مارچ کو پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو دن دہاڑے اسلام آباد میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ بھٹّی کا تعلق پاکستان کی مسیحی برداری سے تھا اور وہ بھی توہینِ رسالت کے قانون میں ترمیم کا مطالبہ کر رہے تھے۔