1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ثقافتشمالی امریکہ

مس امریکا مقابلہٴ حسن کی ایک صدی، کیا کچھ بدلا ہے؟

14 دسمبر 2021

امریکا میں سالانہ بنیاد پر کسی ایک حسین و جمیل لڑکی کو ’مس امریکا‘ کا اعزاز دینے کا سلسلہ 1921ء میں شروع ہوا تھا۔ اس اولین مقابلہٴ حسن کے بعد وہاں نوجوان خواتین میں ’حسین‘ کہلائے جانے کا پیچیدہ مسابقتی عمل شروع ہوا۔

Miss America
سن 2015 میں مس امریکا کے مقابلے میں شریک مختلف ریاستوں کی حسینائیں نیویارک سٹی کے ٹائمز اسکوئر میں جمع ہیںتصویر: Bruce Cotler/Globe-ZUMA/picture alliance

 

امریکی ریاست نیو جرسی کے بحرِ اوقیانوس پر واقع تفریحی شہر اٹلانٹک سٹی میں آٹھ ستمبر 1921 کو ایک رنگا رنگ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا اور اس میں مقابلہٴ حسن کا انعقاد ہوا تھا۔ اس اولین مقابلہٴ حُسن میں پہلی مرتبہ کسی خوبرو جواں لڑکی کو مس امریکا کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ اولین مس امریکا مارگریٹ گورمین تھیں۔

نئی مِس جرمنی کی خاص بات کیا ہے؟

بظاہر ایسے مقابلوں کا اہتمام سن 1919 میں شروع ہو چکا تھا لیکن باضابطہ آغاز دو سال بعد کیا گیا۔ اس تقریب کی اہمیت اُس وقت اِس لیے بھی زیادہ محسوس کی گئی کیونکہ ایک سال قبل یعنی سن 1920 میں امریکی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا۔

مس امریکا مقابلہٴ حسن کا انعقاد کرانے والے ادارے کا صدر دفتر امریکی ریاست کنیٹیکٹ کے شہر اسٹیم فورڈ میں واقع ہے۔

مس امریکا سن 2005 کی کامیاب حسینہ ڈیڈرے ڈاؤنزتصویر: AP

مس امریکا کلچر

اس اولین مقابلہٴ حسن کے بعد امریکا میں نوجوان خواتین میں 'حسین‘ کہلائے جانے کا پیچیدہ مسابقتی عمل شروع ہو گیا۔ پھر ہر ریاست میں ان مقابلوں کا اہتمام شروع ہو گیا۔

ان ایک سو برسوں میں اس مقابلہٴ حسن کو خواتین کے حقوق کی مہموں کا بھی سامنا رہا۔ خاص طور پر نسائی تحریکوں یا 'فیمنسٹ موومنٹ‘ نے ان مقابلوں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا اور انہیں خواتین کے استحصال کا رویہ قرار دے دیا۔

سب سے حسین جرمن لڑکی کا انتخاب خواتین کی جیوری نے کیا

سن 1960 کی دہائی میں ایسے مقابلوں کا ریاستی اور قومی سطح پر انعقاد جاری رہا لیکن خواتین میں کسی حد تک بتدریج بیزاری کا عنصر بھی جنم لینے لگا۔ اس دور میں ان مقابلوں میں دلچسپی کم ہونے کی ایک بڑی وجہ اس مقابلے کی نشریات کو ٹیلی وژن کے پرائم ٹائم پر نشر کرنے کے بجائے اسے دیکھنے کو باقاعدہ ادائیگی سے جوڑ دیا گیا اور مقابلہٴ حسن کو این بی سی کی 'پیکاک سروس‘ پر نشر کیا جانے لگا۔

مس امریکا مقابلے میں شریک امریکی حسینائیں نیو یارک سٹی کے ٹائمز اسکوائر میں مختلف بینرز کے ساتھتصویر: Bruce Cotler/Globe-ZUMA/picture alliance

سن انیس سو پچاس کی دہائی کے آخر میں مقابلہ حسن میں صرف سفید نسل کی لڑکیوں کی شرکت کو عوامی مطالبے کے تناظر میں ختم کر دیا گیا اور سن 1968 میں پہلی مرتبہ 'مس بلیک امریکا‘ کے مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ ان مقابلوں کو بھی فیمنسٹ موومنٹ کی شدید مخالفت کا سامنا رہا اور پھر اس کا سلسلہ موقوف کر دیا گیا۔ سن 1984 میں پہلی مرتبہ ایک سیاہ فام خاتون وینیسا ولیم کو مس امریکا کا تاج پہنایا گیا۔

مس امریکا مقابلہٴ حسن سے کچھ زیادہ

ان مقابلوں کو ابتدا میں سارے امریکا میں خواتین کے لیے ایک اسکالر شپ کی حیثیت دی گئی تھی اور رفتہ رفتہ اس کے منتظمین نے اس میں گلیمرس کے ساتھ ساتھ کمرشل پہلووں کو بھی اجاگر کر دیا۔

ٹرانس جینڈر بھی مس یونیورس بننے کی دوڑ میں شامل

مقابلہٴ حسن کو خواتین کی شخصیت کو بلند کرنے کا ایک زینہ سمجھا جاتا ہے اور اس اعزاز کی حامل خواتین پر پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بڑھا دی گئیں اور یہ کسی بھی مس امریکا کی سماجی حیثیت کو بلند کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایسا بھی تاثر ہے کہ مس امریکا کا تاج پہننے والی خاتون پر ایک کامیاب زندگی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

سن 1984 میں پہلی مرتبہ ایک سیاہ فام خاتون وینیسا ولیم کو مس امریکا کا تاج پہنایا گیاتصویر: AP

مناسب اعزاز

سن 2004 کی مس امریکا ایریکا ڈُنلیپ کا کہنا ہے کہ مقابلہٴ حسن کے حوالے سے لوگوں میں یہ تاثر غلط پایا جاتا ہے کہ ایسے مقابلوں میں زرق برق لباس پہن کر اسٹیج پر آنا ہی سب کچھ ہے لیکن وہ خواتین میں حوصلہ، لگن، جرات اور مقابلہ کرنے کی قوت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔

ایک ٹوئیٹ پر ’مس ترکی‘ تاج سے محروم، اب سزائے قید کا خطرہ بھی

مس امریکا کے موضوع پر لکھی گئی ایک کتاب کی مصنفہ مارگٹ مِفلین کا کہنا ہے کہ مس امریکا کا مقابلہ حقیقت میں 'ویمن ہُڈ‘ یا عورت پن کا مظہر کہا جا سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ عورت کے حسن اور اس کے جسمانی و ذہنی طور پر مکمل فٹ ہونے سے جڑا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے مقابلوں میں شریک خواتین میں قیادت کا رجحان، ذہانت اور ابلاغ کے رویوں کو بھی پرکھا جاتا ہے۔ مِفلین کے مطابق اب ایسے مقابلوں میں انتہائی زیادہ تنوع پیدا ہو چکا ہے۔

ع ح/ ا ا (اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں