مس وہیل چیئر ورلڈ کا پہلا مقابلہ بیلاروس کی حسینہ نے جیت لیا
مقبول ملک اے پی
8 اکتوبر 2017
دنیا کی بہت خوبصورت لیکن وہیل چیئر استعمال کرنے والی خواتین کا پولینڈ میں منعقدہ اپنی طرز کا پہلا مس وہیل چیئر ورلڈ مقابلہ بیلاروس کی ایک لڑکی نے جیت لیا۔ اس مقابلے کا مقصد معذوروں سے متعلق عمومی سوچ کو تبدیل کرنا تھا۔
اشتہار
پولینڈ کے دارالحکومت وارسا سے اتوار آٹھ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اپنی نوعیت کے اس اولین بین الاقوامی مقابلے کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ مختلف معاشروں میں معذور انسانوں کی کسی نہ کسی جسمانی معذوری کے باعث ان سے متعلق پائی جانے والی روایتی سوچ کو تبدیل کیا جائے۔
اس بین الاقوامی مقابلے کا اہتمام پولینڈ کی ایک تنظیم نے ہفتہ سات اکتوبر کی رات وارسا میں کیا اور اس کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اس عمومی زاویہء نگاہ کو بدلنے کی ضرورت ہے، جس سے کسی بھی معاشرے میں معذور انسانوں کو دیکھتا جاتا ہے۔
اس مقابلے میں مس وہیل چیئر ورلڈ کا اعزاز بیلاروس کی ایک حسینہ نے حاصل کیا جبکہ دوسرے نمبر پر جنوبی افریقہ کی ایک لڑکی اور تیسرے نمبر پر میزبان ملک پولینڈ کی وہیل چیئر استعمال کرنے والی ایک نوجوان خاتون رہی۔ ’مس وہیل چیئر ورلڈ‘ بننے والی بیلاروس کی 23 سالہ آلیکساندرا چیچیکووا نے بعد ازاں حاضرین سے خطاب کیا، تو انہوں نے خاص طور پر دیگر معذور خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’آپ بھی اپنے خوف اور خدشات پر قابو پائیں۔‘‘
اس مقابلے کا اہتمام پولینڈ کی جس تنظیم نے کیا، اس کا نام ’اونلی ون فاؤنڈیشن‘ (Only One Foundation) ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد دو ایسی خواتین نے رکھی تھی، جو خود بھی معذور ہیں اور جن کی خواہش یہ تھی کہ ان سماجی حدود و قیود کا خاتمہ کیا جائے، جن کا معذور افراد کو اپنی معاشرتی زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے اور جن کی وجہ سے وہ زندگی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اسی تنظیم کی طرف سے ماضی میں چار مرتبہ ملکی سطح پر مس وہیل چیئر پولینڈ کے مقابلوں کا اہتمام بھی کیا جا چکا ہے۔ ہفتے کی رات منعقد کیا گیا مس وہیل چیئر ورلڈ مقابلہ وہ پہلی کاوش تھا، جس کے ذریعے اس مقابلے کا قومی کے بعد اب بین الاقوامی سطح پر انعقاد کیا گیا۔
اس مقابلہ حسن کے انعقاد میں منتظمین کو وارسا شہر کی مقامی انتظامیہ کا تعاون بھی حاصل رہا۔ ’اونلی ون فاؤنڈیشن‘ کے مطابق کسی بھی وہیل چیئر میں بیٹھی ہوئی ہر لڑکی اور ہر خاتون کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بھی ’خود کو خوبصورت محسوس کرے اور جو کچھ بھی بننا چاہے، بغیر کسی رکاوٹ کے بن سکے‘۔
مس وہیل چیئر ورلڈ مقابلے کا نام اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال خواتین کا جو عالمی مقابلہ حسن کروایا جاتا ہے، وہ مس ورلڈ مقابلہ کہلاتا ہے۔ اس مقابلے میں شرکاء کی طرف سے وہیل چیئر کے استعمال کے باعث اسے مس وہیل چیئر ورلڈ کا نام دیا گیا۔
حسین ترین خواجہ سرا، اسرائیل میں انوکھا مقابلہ
اسرائیل میں گیارہ خواجہ سراؤں نے اپنے خلاف نسلی امتیاز کو نمایاں کرنے اور ملکہٴ حسن کے تاج کے لیے اپنی نوعیت کے پہلے مقابلہٴ حسن میں حصہ لیا۔ عرب مسیحی تالین ابو شانا کو ملک کا حسین ترین خواجہ سرا منتخب کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Balilty
ان میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے
یہ مقابلہ تل ابیب میں اسرائیلی نیشنل تھیٹر میں ہوا۔ ملکہٴ حسن کا تاج تالین ابو شانا کے سر پر سجا، جس نے اپنے تاثرات میں کہا:’’یہ تاج اتنا اہم نہیں ہے۔ ہمیں کسی کی ضرورت نہیں، جو ہمیں یہ بتائے کہ کون زیادہ حسین ہے، ہم میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے۔‘‘ اس فاتح خواجہ سرا کو تھائی لینڈ میں زیادہ خوبصورت بننے کے آپریشنز کے لیے تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار یورو کے برابر رقم ملے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Sultan
بین الاقوامی اسٹیج پر
تالین ابوشانا کا تعلق الناصرہ سے ہے۔ وہ مسیحی ہے اور اس کا تعلق ایک عرب خاندان سے ہے۔ یوں خواجہ سرا کے طور پر اُسے دوہرے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اکیس سالہ بیلے رقاصہ تالین اب اسپین کے شہر بارسلونا میں ’مِس ٹرانس سٹار‘ کے نام سے ہونے والے خواجہ سراؤں کے بین الاقوامی مقابلہٴ حسن میں شرکت کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین
یہ مقابلہٴ حسن تل ابیب میں خواجہ سراؤں، ہم جنس پرست مردوں اور ہم جنس پرست عورتوں کے سالانہ جشن کا نقطہٴ آغاز تھا۔ یہ اسرائیلی شہر اس طرح کے مرد و زن اور مخنث افراد کے ایک گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال کی تقریبات کو ’ویمن فار اے چینج‘ یعنی ’تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد حقوق کے طالب
’مِس ٹرانس‘ نامی اس مقابلہٴ حسن کی داغ بیل اسرائیلا اسٹیفانی لیو نے ڈالی ہے۔ وہ خود بھی ایک خواجہ سرا ہے اور اُسے امید ہے کہ اس مقابلے کے ذریعے لوگ خواجہ سراؤں اور مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد کے حالات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے:’’ہم مساوی حقوق کے حامل افراد کے درمیان مساوی حقوق چاہتے ہیں‘‘۔ انعامات تقسیم ہونے لگے تو لیو نے چِلاّ کر کہا:’’یہ خواجہ سرا کمیونٹی کی آزادی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
مختصر ملبوسات، طویل داستانیں
اس شام کے مقابلے میں شریک خواجہ سرا ایک طویل سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہ سب پہلے لڑکے تھے لیکن چونکہ اُن کے میلانات مختلف تھے، اس لیے انہوں نے تبدیلیٴ جنس کا آپریشن کروا لیا۔ اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ خواجہ سرا کمیونٹی کے ارکان کو نفرت اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
بڑے شہر میں آ کر پناہ لی
اس تصویر میں آئلین بن زیکن میک اپ کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اُسے ’مِس فوٹوجینک‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اُس کا تعلق یروشلم کے ایک انتہائی قدامت پسند گھرانے سے ہے۔ بیکری مصنوعات کی ماہر آئلین بتاتی ہے کہ کیسے اُس کے پاس پڑوس کے لوگ اُسے حقارت سے دیکھا کرتے تھے:’’مجھے بار بار گالیاں دی جاتی تھیں، حتیٰ کہ میں تنگ آ کر تل ابیب آ گئی۔‘‘ اب وہ صرف اپنی ماں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lemel
گھر والوں کی بھی نفرت کا نشانہ
اس مقابلے میں شریک دیگر خواجہ سراؤں کی کہانی بھی مختلف نہیں ہے۔ زیادہ تر خواجہ سراؤں کے گھر والے پہلے اُن کے اپنی اصل شناخت کے سفر کو اور پھر اُن کے تبدیلیٴ جنس کے آپریشنز کو رَد کرتے ہیں۔ ان میں سے متعدد ایسے ہیں، جن کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
دانشمندی کا راستہ
آیا اس مقابلے سے خواجہ سراؤں کی جانب لوگوں کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اسرائیلی اخبار ’ہاریٹس‘ لکھتا ہے:’’ایک ایسی حقیقی صورتِ حال میں، جہاں خواجہ سرا کمیونٹی کی یہ خواتین معاشرے میں اپنے جائز حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں، مِس ٹرانس 2016ء کا مقابلہ دانشمندی کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘