مشال خان قتل: پچیس ملزمان کی سزائے قید معطل، ضمانت پر رہائی
مقبول ملک اے پی
27 فروری 2018
پاکستان کی ایک اپیل کورٹ نے صوبے خیبر پختونخوا کے ایک یونیورسٹی طالب علم مشال خان کے مبینہ توہین مذہب کے باعث قتل کے جرم میں سزا یافتہ پچیس مجرموں کی سزائے قید معطل کر دی ہے۔ مشال خان کے خلاف الزام جھوٹا ثابت ہوا تھا۔
اشتہار
خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے منگل ستائیس فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق تئیس سالہ مشال خان مردان یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے طالب علم تھے اور انہیں اسی یونیورسٹی کے کیمپس پر اپریل دو ہزار سولہ میں بیسیوں مشتعل طالب علموں نے ان الزامات کے بعد مار مار کر ہلاک کر دیا تھا کہ وہ مبینہ طور پر توہین مذہب کے مرتکب ہوئے تھے۔
بعد میں وسیع پیمانے پر کی گئی اعلیٰ سطحی تفتیش سے ثابت ہو گیا تھا کہ مشال خان کے خلاف لگائے گئے توہین مذہب کے الزامات قطعی بےبنیاد اور جھوٹے تھے۔ مشال خان کے قتل کے مقدمے میں ہری پور کی ایک ضلعی عدالت نے اسی مہینے ایک ملزم کو سزائے موت اور تیس دیگر کو جرمانے اور قید کی سزاؤں کا حکم سنایا تھا۔
ان میں سے پانچ ملزمان کو عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں جبکہ باقی ماندہ پچیس ملزمان کے خلاف عدالت نے چار چار سال قید اور جرمانے کا حکم سنایا تھا۔
اس ضلعی عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل پر اب جن پچیس ملزمان کی سزائے قید معطل کر دی گئی ہے، ان کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل سید اختر نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ عدالت نے ان دو درجن سے زائد ملزمان کے لیے سزائے قید کے فیصلے کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ان ملزمان کو سنائی گئی قید کی سزائیں معطل کی جاتی ہیں اور جب تک ان کی اپیل پر فیصلہ نہیں ہوتا، انہیں ضمانت پر رہا بھی کر دیا جائے۔
دھرنے والے کیا چاہتے ہیں آخر؟
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mirza
10 تصاویر1 | 10
ان 25 ملزمان کے وکیل صفائی سید اختر کے مطابق اس قتل کیس میں سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں پانے والے باقی تمام چھ ملزمان کو سنائی گئیں سزائیں ابھی تک اپنی جگہ مؤثر ہیں۔ ضلعی سطح پر اس مقدمے کی پہلی سماعت انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں ہوئی تھی۔
انسانی حقوق کی کئی پاکستانی اور بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق قریب دو سال قبل مردان میں مشال خان کا من گھڑت اور بے بنیاد افواہوں کے بعد مشتعل یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے ہاتھوں قتل اس امر کا ایک اور واضح ثبوت تھا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے خلاف متنازعہ قانون کا اکثر مسلمانوں اور غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اس صورت حال کا تدارک عرصہ ہوا لازمی ہو چکا ہے۔
سوات: انتہاپسندوں کے لیے انضمامی مراکز، تصاویر
پاک فوج کے تربیتی ادارہ مشال سے مزید تریسٹھ شدت پسندی سے تائب افراد کو تربیت مکمل ہونے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ یہاں اب تک گیارہ سو سے زائد نوجوان تربیت حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: Adnan Bacha
سوات کے علاقہ گلی باغ میں پاک فوج کے تربیتی ادارے مشال سے شدت پسندی سے تائب 63 افراد کی رہائی کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی۔
تصویر: Adnan Bacha
پاک فوج کے تربیتی ادارے مشال سے اب تک 1132 افراد کو تربیت مکمل ہونے کے بعد رہا کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Adnan Bacha
فوج کے قائم کردہ مشال سینٹر میں شدت پسندی سے تائب افراد الیکٹریشن کورس کی کلاس میں بیٹھے ہیں.
تصویر: Adnan Bacha
مشال میں ذہنی نشوونما کی تربیت دینے والے ماہر نفسیات محمد نبی چمکنی کا کہنا ہے کہ مشال میں مختلف طریقوں سے تربیت دی جاتی ہے۔
تصویر: Adnan Bacha
ان اداروں میں ایک ’صباؤن‘ بھی ہے، جہاں 18سال سے کم عمر شدت پسندی سے تائب بچوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ دوسرا ادارہ ’مشال‘ جہاں 18سال سے زائد عمر والے افراد کو تربیت دی جاتی ہے۔
تصویر: Adnan Bacha
سوات آپریشن کے بعد پاکستانی فوج نے عسکریت پسندی میں ملوث نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان کے لیے بحالی مراکز قائم کیے، جہاں ان کی سماجی، معاشرتی، دینی و دنیاوی تعلیم اور کمپیوٹر ٹریننگ کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشوونما کی جاتی ہے۔
تصویر: Adnan Bacha
2007ء سے لے کر 2009ء تک سوات کی شورش کے دوران طالبان نے سینکڑوں افراد کو اپنے ساتھ بھرتی کرلیا تھا، جن میں کثیر تعداد نوجوانوں کی تھی۔
تصویر: Adnan Bacha
کور کمانڈر پشاور خالد ربانی نے تربیت مکمل کرنے والے افراد میں انعامات تقسیم کیے اور کہا کہ سوات میں امن کا قیام عوام، پولیس اور فوج کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
تصویر: Adnan Bacha
مشال میں تربیت مکمل کرنے والے افراد تقریب کے دوران روایتی موسیقی پیش کر رہے ہیں۔
تصویر: Adnan Bacha
تقریب میں کور کمانڈر پشاور خالد ربانی، پاک فوج کے اعلیٰ افسران اور مقامی عمائدین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔