مشال خان قتل کیس، ایک مجرم کو سزائے موت، تیس کو سزائے قید
فریداللہ خان، پشاور
7 فروری 2018
خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مشال خان قتل کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے ایک ملزم کو سزائے موت،پانچ کو پچیس پچیس سال قید و جرمانہ، پچیس ملزموں کوچار، چار سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔
اشتہار
عدالت نے چھبیس ملزموں کو عدم ثبوت کی بنا پر بری بھی کر دیا ہے ۔ جب کہ مشال خان قتل کیس میں مرکزی ملزم سمیت تین ملزمان اب تک مفرور ہیں۔
مشال خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے طالب علم تھے جنہیں گزشتہ برس اپریل میں یونیورسٹی کے احاطے میں ’توہین رسالت‘ کا جھوٹا الزام عائد کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔
مشال خان کے قتل کے الزام میں اکسٹھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس نے موجود شواہد کی بنیاد پر تفتیش جاری رکھتے ہوئے ستاون افراد کو گرفتار کیا تھا جب کہ مرکزی ملزم سمیت تین افراد تاحال روپوش ہیں۔ اس عدالت نے سماعت مکمل ہونے کے بعد تیس جنوری کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ مشال خان کے والد محمد اقبال کی درخواست پر مذکورہ کیس پشاور ہائی کورٹ سے ایبٹ آباد کی خصوصی عدالت منتقل کیا گیا تھا۔
گرفتارملزمان کو بدھ کے روز ضلع ہری پور کی سینٹرل جیل کے احاطے میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج فضل سبحان کے سامنے پیش کیا گیا۔
اس مقدمے کی پچیس سماعتیں ہوئیں جن میں 68 گواہ پیش ہوئے تھے۔ آج سات فروری بروز بدھ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مشال خان کو قتل کرنے کے جرم میں ایک ملزم عمران علی کو سزائے موت، پانچ ملزمان اشفاق خان، مدثر بشیر، بلال بخش، فضل رازق اور مجیب اللہ کو پچیس پچیس سال قید اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ، پچیس افراد کو چار چار سال قید کی سزا اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
عدالت نے چھبیس افراد کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا۔ عدالت نے ان گرفتار چھبیس افراد کی فوری رہائی کا حکم بھی دیا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں جائے وقوعہ پر موجودگی کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد مشال خان کے بھائی ایمل خان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارا مطالبہ ہے کہ جو افراد ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے، انہیں بھی گرفتار کر کے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں ۔ ہم وکلا سے مشاورت کے بعد آئندہ لائحہ عمل طے کریں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے انہیں سیکورٹی فراہم کی ہے اور کوئی دھمکی نہیں ملی تاہم خطرات کی وجہ سے مشال کی بہنوں کی تعلیم ادھوری رہ گئی ہے۔ ایمل کے مطابق وہ ’انہیں تعلیمی اداروں میں بھیج کر رسک نہیں لے سکتے‘۔ مشال کے بھائی کا مزید کہنا تھا، ’’تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ مشال خان بے گناہ تھے ‘‘
اقلیتوں کے حقوق، پاکستان بدل رہا ہے
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں یہاں اقلیتوں کی بہبود سے متعلق چند ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بدل رہا ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
ہندو میرج ایکٹ
سن 2016 میں پاکستان میں ہندو میرج ایکٹ منظور کیا گیا جس کے تحت ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کی شادیوں کی رجسٹریشن کا آغاز ہوا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد مذہب کی جبری تبدیلی اور بچپنے میں کی جانے والی شادیوں کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔
تصویر: DW/U. Fatima
غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون
پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پر قتل کے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں۔ سن 2016 میں پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو اُس کے بھائی نے مبینہ طور پر عزت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ قندیل بلوچ کے قتل کے بعد پاکستانی حکومت نے خواتین کے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون منظور کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PPI
ہولی اور دیوالی
پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف نے حال ہی کراچی میں میں ہندوؤں کے تہوار میں شرکت کی اور اقلیتوں کے مساوی حقوق کی بات کی۔ تاہم پاکستان میں جماعت الدعوہ اور چند دیگر تنظیموں کی رائے میں نواز شریف ایسا صرف بھارت کو خوش کرنے کی غرض سے کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
خوشیاں اور غم مشترک
کراچی میں دیوالی کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے سب شہریوں کو ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔
تصویر: Reuters
کرسمس امن ٹرین
حکومت پاکستان نے گزشتہ کرسمس کو پاکستانی مسیحیوں کے ساتھ مل کر خاص انداز سے منایا۔ سن 2016 بائیس دسمبر کو ایک سجی سجائی ’’کرسمس امن ٹرین‘‘ کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے مسیحی برادری کے ساتھ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے پیغام کے طور پر روانہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
کئی برس بعد۔۔۔
اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کو پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام معنون کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق احمدی فرقے سے تھا جسے پاکستان میں مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔ فزکس کے اس پروفیسر کو نوبل انعام سن 1979 میں دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پاکستان میں سکھ اقلیت
پاکستان میں سکھ مذہب کے پیرو کاروں کی تعداد بمشکل چھ ہزار ہے تاہم یہ چھوٹی سی اقلیت اب یہاں اپنی شناخت بنا رہی ہے۔ سکھ نہ صرف پاکستانی فوج کا حصہ بن رہے ہیں بلکہ کھیلوں میں بھی نام پیدا کر رہے ہیں۔ مہندر پال پاکستان کے پہلے ابھرتے سکھ کرکٹر ہیں جو لاہور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں کرکٹ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images
7 تصاویر1 | 7
دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت نے بری ہونے والے چھبیس ملزمان کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لیے پراسیکیوشن کو ہدایت جاری کر دی ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے نائب پارلیمانی لیڈر شوکت علی یوسفزئی کا کہنا تھا،’’یہ فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا ہے۔ کیس میں بری ہونے والے ملزمان کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔‘‘
مشال خان کی والدہ نے اس فیصلے کے حوالے سے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا، ’’چار سال کی سزا اور جرمانے کافی نہیں ہے جن لوگوں نے جرم کیا ہے، انہیں اس کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔‘‘
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مشال خان کے والد محمد اقبال پاکستان سے باہر ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ وکلا سے مشاورت کرنے کے بعد اس فیصلے کے بارے میں اپنی رائے دیں گے ۔
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔