پاکستانی پولیس کے مطابق اس نے دو برس قبل مردان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے غلط الزام کے تحت تشدد کر کے مار دیے جانے والے طالب علم مشال خان کے قتل کے مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ ملزم دو برس سے روپوش تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں اپریل 2017ء میں پیش آنے والے اس واقعے میں لوگوں کو مشال خان کے خلاف بھڑکانے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ضلعی پولیس افسر سعید خان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ عارف خان نامی یہ شخص اپریل 2017ء سے روپوش تھا۔
مردان یونیورسٹی میں طلبہ کی طرف سے شدید تشدد کر کے 23 سالہ طالب علم مشال خان کو جان سے مار دیا گیا تھا۔ تاہم یہ بات بعد میں واضح ہوئی کہ اس پر لگایا جانے والا یہ الزام غلط تھا کہ اس نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پوسٹ کیا تھا۔
یہ گرفتاری ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب چند روز قبل ہی ایک اپیل کورٹ نے اُن 25 مشتبہ افراد کو دی گئی تین تین برس قید کی سزا کو معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا جن پر الزام تھا کہ وہ مشال خان پر تشدد کرنے والوں میں شامل تھے۔
فروری میں ایک انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے مشال خان قتل کیس میں ایک شخص کو سزائے موت جبکہ پانچ دیگر کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اپیل کورٹ کی طرف سے اِن سزاؤں میں کوئی رد وبدل نہیں کیا گیا۔
پاکستان میں توہین مذہب ایسا جرم ہے جس کی سزا موت مقرر ہے۔ تاہم بہت سے ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں لوگ اپنے مختلف مقاصد پورے کرنے کے لیے مخالفین پر توہین مذہب کا غلط الزام لگا دیتے ہیں۔ پاکستانی صوبہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو اسی قانون کے حوالے سے دیے گئے بیانات کے باعث ان کے ایک محافظ نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
دھرنے والے کیا چاہتے ہیں آخر؟
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔