نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شامی صوبے ادلب میں روسی جنگی طیاروں کی مبینہ بمباری کے نتیجے میں کم از کم چھیالیس افراد مارے گئے ہیں۔ دوسری طرف شامی فورسز حلب کی بازیابی کے لیے آپریشن میں پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ شامی صوبے ادلب میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں چار دسمبر بروز اتوار کیے جانے والے متعدد فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم چھیالیس افراد مارے گئے ہیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے البتہ ہلاکتوں کی تعداد باون بتائی ہے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ اتوار کے دن سب سے زیادہ خونریز فضائی حملہ کفر نبل نامی علاقے پر کیا گیا، جہاں چھبیس افراد لقمہ اجل بنے۔ اس علاقے میں ہوئی بمباری کے نتیجے میں ایک ہی کبنے کے چار بچے بھی ہلاک ہو گئے۔
آبزرویٹری کے مطابق ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ یہ حملے کس نے کیے۔ تاہم شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ کارروائی روسی جنگی جہازوں نے کی۔ شام میں باغیوں کے خلاف جاری کارروائی میں روسی فضائیہ بھی شامی فورسز کو تعاون فراہم کر رہی ہے۔
شامی صدر کی حامی ماسکو حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شام میں ’دہشت گردوں‘ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جبکہ انسانی حقوق کے کارکنوں کا الزام ہے کہ اس کارروائی میں روسی جنگی جہازوں سے اعتدال پسند باغیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں عام شہری بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔
حلب: چمکتا دمکتا شہر کھنڈرات میں تبدیل
حلب، جو کبھی شام کا ایک کاروباری مرکز ہوا کرتا تھا، اب کھنڈرات پر مشتمل ایک صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اسد کی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی نے ایک ہنستے بستے شہر کو کیسے بدل ڈالا ہے، اس کی ایک جھلک، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WYD Krakow2016
بمباری کے ہولناک اثرات
جہاں حلب شہر کا ایک حصہ بدستور صدر بشار الاسد کی فوج کے کنٹرول میں ہے، وہاں باغی دوسرے حصے کا دفاع جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں جانب بے پناہ تباہی ہوئی ہے۔ اس تصویر میں شہر کا بنی زید نامی علاقہ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Ourfalian
کھنڈرات کے پہاڑ
دُور دُور تک پھیلی اور قطار در قطار بنی رہائشی عمارات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ہر بمباری کے بعد امدادی کارکن ملبے تلے دب جانے والے انسانوں کی تلاش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Ebu Leys
امدادی کارکن مسلسل مصروف
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے اسد کے فوجی دستوں کی جانب سے کیے جانے والے ایک حملے کے بعد باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں ملبہ ہٹایا جا رہا ہے۔ بعض اوقات امدادی کارکن خالی ہاتھوں سے ملبہ ہٹا کر لوگوں کو باہر نکالنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Sultan
دھوئیں کے ساتھ اسد کی فوج کا مقابلہ
باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں حکومتی افواج کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے مثلاً حلب کے مشہد نامی علاقے میں ٹائر جلائے جا رہے ہیں تاکہ دبیز دھواں حملہ آوروں کی دیکھنے کی صلاحیت کو کسی قدر محدود بنا سکے۔
تصویر: picture-alliance/AA/B. el Halebi
بے گھر لوگ سر پر چھت کی تلاش میں
سر پر چھت سے محروم ہو جانے والے شہری اپنے لیے کوئی نیا ٹھکانہ تلاش کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ بے گھر شہری خیموں میں ہی نہیں بلکہ تباہ شُدہ موٹر گاڑیوں میں بھی رات بسر کر لیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/A.H. Ubeyed
بھاگ کر آنے والوں کے لیے رہائشی مکانات
شامی حکومت نے باغیوں کے زیر انتظام علاقوں میں بسنے والے شہریوں سے یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ اُن علاقوں کو چھوڑ کر نکل آئیں۔ ایسے شہریوں کے لیے حلب شہر کے شمال میں نئی رہائشی عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP-Photo
مساجد بھی نشانہ
شام میں گزشتہ کئی سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران عبادت خانے بھی محفوظ نہیں رہے۔ شہر حلب کے قفر حمرہ نامی علاقے کی عمر بن خطاب مسجد کا حال اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/T. el Halebi
رات کو بھی سکون نہیں
رات کو بھی لڑائی جاری رہتی ہے۔ وقفے وقفے سے سیاہ دھوئیں کے بادل آسمان کی جانب بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے حکومتی افواج کے اسلحے کے ایک گودام کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kurab
کھنڈرات کے پاس ہی باغیچہ
اس ساری تباہی کے بیچوں بیچ اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی انسانوں کی مجبوری ہے مثلاً عبداللہ الکتماوی نے یہ ایک چھوٹا سا کچن گارڈن بنا رکھا ہے، جہاں وہ اپنے استعمال کی سبزی ترکاری پیدا کر لیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. El Halabi
روٹی کے انتظار میں
شہر میں ایسے مناظر اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ منظر حلب کے ایک شمالی علاقے کا ہے، جس پر باغیوں کا کنٹرول ہے۔ یہ لوگ روٹی جیسی بنیادی اَشیائے خوراک کے حصول کے لیے دیر تک قطاریں بنائے کھڑے رہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Al-Masri
جنگ میں وقفہ
اس طرح کے جھولے شہر میں کبھی ایک جگہ دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کسی دوسری جگہ۔ یہ جھولے غنیمت ہیں کہ ان کی وجہ سے بچے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن جنگ کو بھول جاتے ہیں۔ یہ تصویر اس سال جولائی کے اوائل میں اُتاری گئی۔
تصویر: picture-alliance/AA/A.H. Ubeyed
جنگ کا کھیل
بچے جنگ کے مناظر کے عادی ہو چکے ہیں، اتنا زیادہ کہ وہ کھیل میں بھی جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر میں حلب شہر کے باغیوں کے زیر انتظام علاقے کے بچے پلاسٹک کے ہتھیاروں سے کھیل رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
گرجا گھرمیں عبادت
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سب کچھ ہی تباہ ہو چکا ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کا یہ عبادت خانہ ابھی تک بمباری کا نشانہ بننے سے محفوظ رہا ہے۔ اسی گرجا گھر میں حال ہی میں سینکڑوں نوجوانوں نے ورلڈ یوتھ کانگریس کا جشن منایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WYD Krakow2016
13 تصاویر1 | 13
دوسری طرف حلب میں شامی فورسز اور باغیوں کے مابین گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔ اتوار کے روز موصول ہونے والی تازہ اطلاعات کے مطابق شامی فورسز کامیاب پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے باغیوں کے زیر قبضہ حلب کا ساٹھ فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا ہے۔ باغیوں نے سن دو ہزار بارہ میں مشرقی حلب پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم اب روسی عسکری امداد کے باعث دمشق حکومت اس علاقے کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش میں ہے۔
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق حلب میں شروع کیے گئے شامی فورسز کی ایکشن کے بعد سے اب تک کم از کم تین سو گیارہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بیالیس بچے بھی شامل ہیں۔ اس کارروائی میں شامی فوج بھاری توپخانے کے استعمال کے علاوہ شدید فضائی حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ آبزرویٹری نے یہ بھی کہا ہے کہ باغیوں کی کارروائیوں کے باعث اسی دوران کم از کم 69 شہری بھی مارے گئے ہیں، جن میں اٹھائیس بچے بھی شامل ہیں۔
شام میں گزشتہ پانچ برسوں سے جاری اس خونریز خانہ جنگی کے باعث اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق کم از کم تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عالمی کوششوں کے باوجود اس بحران پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی اسٹیفان ڈے مستورا نے ابھی کل ہفتے کے دن ہی خبردار کیا تھا کہ اس تنازعے کے حل کی خاطر فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا۔
حلب ’’ایک بڑے قبرستان‘‘ میں بدل جانے کے خطرے سے دو چار