مشتبہ قاتلوں کا تعلق سعودی ولی عہد کے قریبی حلقے سے، رپورٹ
17 اکتوبر 2018
نئی میڈیا رپورٹوں کے مطابق خاشقجی کے مبینہ قتل میں ملوث کئی افراد کا تعلق براہ راست سعودی ولی عہد کے قریبی حلقے سے ہے۔ محمد بن سلمان ابھی تک اس مبینہ قتل کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات سے انکار کرتے آئے ہیں۔
اشتہار
لاپتہ ہونے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے کیس میں ایک مشتبہ شخص کا تعلق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی حلقے سے ہے۔ یہ شخص رواں برس سعودی ولی عہد کے ہمراہ امریکا، اسپین اور فرانس کے دورے بھی کر چکا ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اس مبینہ قتل کے مشتبہ ملزم ماہر عبد العزيز مترب کی متعدد تصاویر بھی شائع کی ہیں، جن میں اسے سعودی ولی عہد کے انتہائی قریب دیکھا جا سکتا ہے۔ اندازوں کے مطابق یہ شخص محمد بن سلمان کا محافظِ خاص ہے۔
اسی طرح باقی مشتبہ افراد کا تعلق بھی ولی عہد کے سکیورٹی دستے سے بتایا گیا ہے۔ ایک مشتبہ شخص کا تعلق طب قانونی کے شعبے سے ہے اور وہ سعودی عرب میں متعدد اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکا ہے۔ سعودی حکام کے مطابق جو پندرہ اہلکار خاشقجی کے مبینہ قتل میں ملوث ہیں، ان میں سے نو سعودی سکیورٹی اداروں، فوج یا پھر دیگر وزارتوں میں ملازمتیں کر چکے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق یہ تمام تر معلومات چہرے کی پہچان کرنے والے سافٹ ویئر، سعودی موبائل ڈیٹا اور سعودی حکومت کی طرف سے عام کی گئی دستاویزات، عینی شاہدین کے بیانات اور میڈیا رپورٹوں سے حاصل کی گئی ہیں۔
اگر یہ الزامات سچ ثابت ہوتے ہیں تو سعودی ولی عہد کے ’تاج کا دفاع‘ بھی کمزور ہو گا۔ قبل ازیں محمد بن سلمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے ترکی میں سعودی قونصل خانے میں ہونے والے ایسے کسی بھی واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب ممکنہ طور پر ایک ایسی رپورٹ بھی شائع کرنے والا ہے، جس کے مطابق سعودی ایجنٹوں نے خود فیصلہ کرتے ہوئے خاشقجی کو اغوا کرنے کی کوشش کی اور اسی کوشش کے دوران وہ مارے گئے۔
خاشقجی تقریباﹰ دو ہفتے قبل ترکی میں استنبول کے سعودی قونصل خانے گئے تھے اور ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ترک حکام کو شبہ ہے کہ خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ ترک رپورٹوں کے مطابق اسی دن پندرہ مبینہ سعودی اسپیشل کمانڈوز کا ایک دستہ بھی ترکی آیا تھا اور انہوں نے ہی یہ کارروائی کی تھی۔
اس مبینہ قتل کی وجہ سے سعودی عرب بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ اسی حوالے سے جی سیون کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین نے بھی ریاض حکومت سے وضاحت طلب کر لی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈ نے بھی مشرق وسطیٰ کا دورہ ملتوی کر دیا ہے، انہوں نے سعودی عرب بھی جانا تھا۔ سعودی عرب اپنے ہاں ایک اقتصادی کانفرنس بھی منعقد کرا رہا ہے اور اس واقعے کے بعد متعدد اقتصادی ماہرین نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔
ا ا / م م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔