1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشترکہ خاندانی نظام، اچھا کیا ہے اور برا کیا؟

9 جنوری 2021

قصہ یہ ہے کہ ایک دن ہماری پڑوسن کی شادی شدہ بیٹی ملنے آئیں۔ اگلے چند لمحوں کی گفتگو سے پتہ چلا کہ وہ کسی کرائے کے گھر کی تلاش میں ہیں کیونکہ شوہر نامدار انہیں بچوں سمیت میکے میں چھوڑ گئے ہیں۔

DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

کرائے کے گھر کا انتظام ہونے تک انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ ہی رہنا تھا۔  لیکن پہلے ہی دو بھابھیوں کی موجودگی میں مزید چار افراد کی گنجائش نکالنا مشکل تھا۔ آخر اتنی ایمرجنسی میں گھر چھوڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سوال کے جواب میں وہی روایتی گھریلو اختلافات کی کہانی سننے کو ملی۔

معلوم ہوا کہ خاتون کا سسرال ساس، سسر، دوعدد غیر شادی شدہ نندیں اور دو عدد دیورانیوں پر مشتمل تھا۔ اکثر کام کاج کم یا زیادہ کرنے پر اختلافات ہونے لگے۔ صورتحال دیکھتے ہوئے سسر نے بہوؤں کا کھانا پکانا تو الگ کر دیا مگر باورچی خانہ گھر میں ایک ہی تھا۔

جب مہمان گھر آتے تو دوبارہ سے ایک تکرار کی صورتحال پیدا ہوجاتی۔ بات اس وقت انتہا کو پہنچی جب نند صاحبہ نے ملازمت شروع کر دی۔ بہو نے بھی اسی ارادے کا اظہار کیا لیکن بہو کو منع کردیا گیا۔ یہ چپقلش بڑھی اور ایک دن بات تو تکار سے جب آگے نکلی تو سسر صاحب نے بیٹے کا بوریا بستر اٹھا کے گھر سے باہر رکھ دیا کہ اگر بہو نے ملازمت ہی کرنی ہے تو پھر تم لوگ اپنی رہائش کا الگ ہی بندوبست کرو۔

اسی طرح کی بے شمار ناانصافیوں کی ایک لمبی داستان تھی جو شاید آج ہر دوسرے گھر میں سننے یا دیکھنے کو ملے گی۔ کیا واقعی اتنے پیارے اور قابل احترام رشتے اس قدر بے بنیاد باتوں کی نذر کیے جاسکتے ہیں؟ کیا رشتوں کی ڈور اس قدر کچی ہوچکی ہے کہ ایک ہلکے سے دباؤ سے ٹوٹ جاتی ہے؟

یہ بھی پڑھیے: بھارتی بوڑھے اور منہدم ہوتا ہوا خاندانی نظام

میرے تصور میں وہ تمام خواتین اور بچیاں آگئیں جو پہلے رشتہ نہ ہونے کے لیے پریشان ہوتی ہیں اور شادی کے بعد گھریلو  ناچاقی و اختلافات زندگی اجیرن کیے رکھتے ہیں۔ پھر یہ سننے کو ملتا ہے کہ آج کل کے دور میں مشترکہ خاندانی نظام ناکام ہوچکا۔

اب تو جدید دور ہے سب کو اپنی زندگی آزادی سے جینے کا حق ہے۔ یہ مشترکہ خاندانی نظام ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کچھ لوگ اس کے خلاف تو کچھ اس کے حق میں دلائل دیتے نظر آئیں گے۔

دنیا کے مختلف معاشروں میں رہنے اور زندگی گزارنے کے کچھ طریقے کچھ ادب آداب ہوتے ہیں۔ خاندانی نظام دنیا کی تمام تہذیبوں میں ہمیشہ سے پایا جاتا رہا ہے، معاشرہ چاہے پسماندہ ہو یا ترقی یافتہ۔ زراعت کے آغاز سے پہلے قبیلہ انسان کی محفوظ پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا تھا اور مشترکہ وراثت کا تصور پایا جاتا تھا۔ کسی کو قبیلہ بدر کر دینا نہایت سنگین سزا تھی۔

اسی طرح زیادہ بچے قبیلے کی طاقت میں اضافے کا باعث کہلاتے تھے۔ جو عورت جتنا بڑا کنبہ بناتی اتنا اس کی قدر میں اضافہ ہوتا۔ پھر زرعی عہد نے نسل انسانی کو بقا کی طرف گامزن کیا اور خوراک کی کمی کے خطرے سے آزادی دلوائی۔

لہذا اس عہد میں آبادی میں ایک دم تیزی سے اضافہ ہوا اور شہری ریاستوں کا قیام آسان ہوتا گیا۔ شہری ریاستوں میں پیداواری عمل کی بدولت قبیلے کی جگہ خاندان کا تصور پیدا ہوا۔ جوں جوں زرعی عہد میں نئی ایجادات متعارف ہوتی گئیں خاندان سمٹتے گئے۔

موجودہ صنعتی انقلاب نے انسان کو بڑے بڑے خاندانوں اور قبیلوں کی قید سے آزاد ہونے میں مدد دی۔ اس دور میں خاندان سے مراد والدین بچے اور دادا دادی وغیرہ ہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام برصغیر کے معاشروں میں ایک اہم ستون رہا ہے۔ تب گھر کے بزرگ بچوں کی تربیت کے لیے نا صرف ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیتے بلکہ ایک ادھ تھپڑ بھی جڑ دیا کرتے تھے لیکن مجال تھی کہ بچے یا بچے کے والدین کے ماتھے پہ ایک شکن بھی آجائے۔

گھر میں صرف ایک ہی کھانا بنتا اور پورا خاندان شوق سے کھا لیا کرتا۔ برگر شوارما کے آپشن بچوں کو دستیاب نہیں ہوا کرتے تھے۔ گھر کی بہو روٹھ جائے تو بڑے صلح کروانے کی کوشش کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے:کیا صرف عورت کو ہی تربیت درکار ہے؟

ایک دوسرے کے لیے دلوں میں گنجائش تھی۔ بچوں کی تربیت کے لیے بزرگوں کے تجربات سے فیض اٹھایا جاتا تھا۔ تب مقابلے کی دوڑ اور دلوں کی رنجش نے لوگوں کو آکٹوپس کی طرح نہیں جکڑا ہوا تھا۔ اور نا ہی مادیت پرستی کی چکا چوند نے آنکھوں کی بینائی متاثر کی تھی۔

لیکن اب دیکھیے کہ جیسے جیسے معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا گیا، رشتوں کی ڈور کمزور ہوتی گئی۔ خاندان کے وہ تمام افراد جو ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے علیحدہ زندگی گزارنے کو ترجیح دینے لگے۔

اتحاد اور اتفاق کی نعمت سے محرومی ہمیں کئی مسائل سے دوچار کر رہی ہے۔ ثقافت کی بقا تو دراصل اسی میں ہے کہ وہ آنے والے وقت کے ساتھ اپنے رنگوں کو بدلے اور نئے دور کے مطابق نئی تبدیلیوں کو شعور بخشے۔

مشترکہ خاندانی نظام صرف ہماری ثقافت ہی نہیں ہماری مجبوری بھی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ دو کمروں کے چھوٹے سے مکان میں ایک درجن سے ڈیڑھ درجن تک لوگ رہتے ہیں۔ تمام مشکلات اور مسائل کے باوجود مشترکہ خاندانی نظام کو اپنائے رکھنا ان کی مجبوری بھی ہے۔

کم آمدنی میں مہنگے ترین پلاٹ پھر تعمیری لاگت کا خرچہ الگ اور دوسری صورت میں کرائے کے گھر کا جھنجھٹ پالنا بھی کچھ آسان نہیں۔ اگر کسی گھر میں والد کی وفات کے بعد ان کے تین چار بیٹے رہائش پذیر ہیں تو ان کے لیے بھی مکان کو بیچ کر وراثت کی تقسیم کرنا اور پھر بہنوں کو حصہ دینا ایک مشکل فیصلہ ثابت ہوتا ہے۔

ایک مکان کو بیچ کر ہر بہن بھائی کے حصے میں جو رقم آئے گی وہ ایک پلاٹ کی قیمت تو ہو سکتی ہے لیکن اس رقم میں ایک مکان کا حصول نہایت مشکل امر ہوتا ہے۔

اس صنعتی دور میں جبکہ بہو اور بیٹا دونوں کو کمانے کی غرض سے گھر سے نکلنا ہے تو مشترکہ خاندانی نظام ہمارے مسائل کا ایک بہترین حل ہے۔ لیکن ایک خاندان میں اتحاد اور اتفاق کی فضا قائم کرنے کے لیے والدین کا کردار بہت اہم ہے۔

اکثر اوقات والدین کا دو اولادوں کے ساتھ امتیازی سلوک بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے یا پھر اولاد کے شادی شدہ ہو جانے کے باوجود والدین کا نہایت آمرانہ رویہ گھر کی فضا میں کشیدگی بڑھا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی ناہمواریاں بھی احساس محرومی کو جنم دیتی ہیں، جس کے نتیجے میں ہر شخص اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کرنے پر تل جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین پر تشدد میں ا‌ضافہ

پھر اس ایک اکائی خاندانی نظام میں بچوں کی تربیت کے لیے والدین کے پاس وقت نہیں بچتا۔ دادا دادی موجود نہیں ہوتے۔ لہذا تربیت کا کام اسکرین سے لیا جاتا ہے، جس کے نتائج نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ بچوں کے بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ مشترکہ خاندانی نظام کو فروغ دیا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کر لیا جائے۔ ایک دوسرے کے لیے دل میں وسعت پیدا کی جائے۔ والدین گھر بناتے ہوئے نقشے میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ بعد میں ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی علیحدہ رہائش اختیار کی جاسکے۔

بڑے بچوں کو شروع سے ہی ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے۔ اپنے حقوق کے ادرک کے ساتھ ساتھ فرائیض کی ادائیگی کا احساس بھی ہو۔ گھر کے اصول اور قوانین تمام فیملی ممبران پر یکساں لاگو ہونے چاہئیں۔

مشترکہ خاندانی نظام کوئی آئیڈیل نظام تو نہیں لیکن موجودہ معاشی حالات دیکھتے ہوئے ہمارے سماجی نظام زندگی سے کافی ہم آہنگ ہے۔ جن ممالک میں ایک اکائی نظام موثر ہے وہاں کی فلاحی حکومتیں عوام کو بہت سے ریلیف فراہم کر رہی ہیں۔

بچوں، بزرگوں اور طالب علموں کی نگہداشت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مکان کی خریداری کے لیے آسان شرائط پر قرضے دستیاب ہیں، جب کہ ہمارے یہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ وسائل دیکھتے ہوئے مشترکہ خاندانی نظام کو فروغ دیا جائے۔

فیملی کرائے پر دستیاب ہے!

01:44

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں