مشرف: آخری امید بھی دم توڑ گئی
27 مارچ 2014خصوصی عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری فیصلے کے بعد اس عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب کے بارے میں وہ تمام خبریں اور اطلاعات غلط ثابت ہو گئیں، جن کے مطابق انہوں نے خود کو غداری کے مقدمے کی سماعت سے الگ کر لیا تھا۔
جمعرات کو مقدمے کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل انور منصور کی طرف سے عدالتی کاروائی پر عدم اطمینان کا اظہار کرنے پر جسٹس فیصل عرب بظاہر غصے میں ڈرامائی انداز سے عدالتی کاروئی کے دوران اٹھ کر چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف کے وکلاء کو اطمینان نہیں تو وہ اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتے۔
جسٹس فیصل عرب کے ان ریمارکس کو تمام مقامی ذرائع ابلاغ نے ان کی بنچ سے علیحدگی کا اعلان سمجھ کر بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا۔ پرویز مشرف کے وکلاء بھی تحریری فیصلے کا انتظار کیے بغیر اسے اپنی کامیابی قرار دینے لگے۔ پرویز مشرف کے ایک وکیل احمد رضا قصوری نے تو میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ جسٹس فیصل عرب کا ضمیر جاگ گیا ہے، اس لیے انہوں نے خود کو اس مقدمے کی سماعت سے الگ کر لیا ہے۔
عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ انور منصور کا رویہ عدالتی وقار کے منافی تھا اور اسی سے متنفر ہو کر عدالت ایک دن کے لیے برخاست کر دی گئی۔
پرویز مشرف کے ایک وکیل فیصل چوہدری نے عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:"یہ فیصلہ غصے میں کیا ہوا معلوم ہوتا ہے"۔
دوسری جانب استغاثہ کی ٹیم کے ایک رکن اکرام چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس فیصل عرب نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ وہ خود کو اس مقدمے سے الگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی لیے خصوصی عدالت ججوں کے تعصب سے متعلق پرویز مشرف کے وکلاء کی درخواست کو بھی رد کر چکی ہے۔ اکرام چوہدری کا کہنا تھا کہ جسٹس فیصل عرب کا بنچ سے الگ نہ ہونے کا فیصلہ پرویز مشرف کی حامی قوتوں کے لیے اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا پیغام ہے:"مشرف کے پیش ہونے میں اب کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ضروری اقدامات کا سلسلہ پہلے ہی کیا جا رہا ہے اور میر ایہ خیال ہے کہ ایگزیکٹو کو مکمل اختیار ہے کہ وہ ان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرے۔"
سابق فوجی صدر پرویز مشرف دل کی تکلیف کے باعث دو جنوری سے راولپنڈی میں واقع عسکری ادارہ برائے امراض قلب میں زیر علاج ہیں۔ ان کے خلاف غداری کے مقدمے کی اب تک چونتیس سماعتیں ہو چکی ہیں اور وہ اٹھارہ فروری کو صرف ایک مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ متعدد بار طلب کیے جانے کے باوجود عدم حاضری پر عدالت نے 14 مارچ کو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے اکتیس مارچ کو طلب کر رکھا ہے۔