مشرف، مینگل کی واپسی کے پاکستانی سیاست پر اثرات
26 مارچ 2013عام انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد پاکستان پر آٹھ سال تک وردی کے سہارے حکومت کرنے والے سابق صدر پرویز مشرف اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل خود ساختہ جلا وطنی ختم کرتے ہوئے صرف ایک دن کے وقفے سے کراچی پہنچ گئے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بدترین حالات کے باوجود سیاسی پنچھیوں کی اپنی منڈیر پر واپسی پاکستان کے جمہوری عمل پر اعتماد کا بھی مظہر ہے۔
پاکستان کی زیادہ تر قومی سیاسی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی (BNP) کے سربراہ سردار اختر مینگل کے بلوچستان سے متعلق سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے والے چھ نُکات کی حمایت کرچکی ہیں اور ان جماعتوں کی یہ بھی کوشش تھی کہ اختر مینگل کی وطن واپسی کے لیے بامقصد مذاکرات کیے جائیں۔
ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں مسئلہ بلوچستان مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب اختر مینگل کی واپسی کے بعد بی این پی بلوچستان میں انتخابی اتحاد کے لیے بھی کوششیں کررہی ہے۔ ان کوششوں کے برعکس روزنامہ دی نیشن کے ایڈیٹر سلیم بخاری مشرف اور مینگل کی واپسی کو، پاک ایران گیس پائپ لائن اور گوادر پورٹ چین کے حوالے کرنے جیسے اہم فیصلوں کے تناظر میں، ایک ہی عالمی سازش کی کڑی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’مشرف کی جماعت کا توکوئی وجود ہی نہیں، اس لیے تبصرے کی بھی ضرورت نہیں، مشرف محض بلوچوں کے جذبات بھڑکانے آئے ہیں۔ کوئی بھی حکومت ہو اُسے اختر مینگل کی پریس کانفرنس پر اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔کوئی بھی لیڈر چاہے بلوچ ہو یا کوئی اور ، اگر حق خود ارادیت کی بات کرتا ہے، تو اس کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔‘‘
اردو اخبار ایکسپریس کے ایڈیٹر اور کالم نگار ایاز خان نے مشرف مینگل واپسی کو ایک ہی سازش کی کڑی قرار دینے سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرف عوامی حمایت نہیں رکھتے لیکن اختر مینگل کی واپسی اہم ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور نگران وزیر اعظم کا تعلق بھی بلوچستانسے ہے۔ صدر پاکستان بھی سندھ میں رہنے والے بلوچ ہیں، اس تناظر میں اگر اختر منگل انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تواس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اختر منگل کا الیکشن میں حصہ لینا اس ملک کے وفاق کے لیے بہتر ہوگا۔ وہ آئیں بلوچستان کی حکومت لیں تو چیزیں بہتر ہونا شروع ہو جائیں گی‘‘۔
پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات آسیہ اسحاق کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے یک نُکاتی ایجنڈے تحت ہر سیاسی جماعت سے اتحاد کے لیے تیار ہے۔ ان کے مطابق کوئی بھی جماعت انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور ان کی جماعت حکومت سازی کے موقع پر اہم کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پرویز مشرف کی جماعت نے اپنے یک نکاتی ایجنڈے کے تحت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سے بھی اتحاد کے دروازے بند نہیں کیے۔
رپورٹ: محسن رضا خان، کراچی
ادارت: امتیاز احمد