صدرپرویزمشرف، عروج سے زوال تک
20 اگست 2008ملک کی اکسٹھ سالہ تاریخ میں پاکستانی عوام آمریت اور لولھی لنگڑی جمہوریت کی آنکھ مچولی کی عادی ہو چکی ہے۔ عوام کا سیاسی مزاج کچھ ایسا بن گیا ہے کہ کبھی کسی ایک حکمران کے اقتدار میں آنے کا جشن منایا جاتا ہے تو کچھ عرصے بعد اُسی کی برطرفی پر مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ تاہم گزشتہ بار ایک ملٹری جنرل کے برسراقتدار آنے سے اسکے مستعفی ہونے تک پاکستان کے عوام کے اندر سیاسی شعور جس حد تک بیدار ہوا ہے، خاص طور سے سول سوسائٹی جس حد تک متحرک ہوئی اسکی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان اندرونی، بیرونی، سیاسی، اقتصادی،معاشرتی اور ہر طرح کے سماجی بحران سے دو چار ہے پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے مستعفی ہونے سے عوام کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پرویز مشرف نے یہ استعفٰی پاکستانی سول سوسائٹی خاص طور سے وکلاء تحریک کے روز بروز بڑھتے ہوئے دباؤ کے تحت دیا۔ اس تناظر میں عام خیال یہی ہے کہ اس کا سہرا وکلاء تحریک میں شریک تمام انصاف پسند عناصر کے سر ہے۔
پاکستان کے فیڈرل شریعیت کورٹ اور ہائی کورٹ کے ایک معروف ایڈووکیٹ بابر بلال نے وکلاء تحریک میں اہم کردار انجام دیا ہے۔ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی بابر بلال نے پاکستانی عدلیہ، میڈیا اورسول سوسائٹی کے دیگر سرگرم افراد پر مشرف دور میں ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جرمن شاخ اور جرمنی کی وکلاء کی انجمن نے بابر بلال کو گزشتہ برس برلن مدعو کیا تھا جہاں بابر بلال نے بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پاکستان کی عدلیہ اور چیف جسٹس کی معذولی سے پیدا ہونے والے بحران پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ جرمنی کے وکلاء کی انجمن نے یقین دلایا تھا کہ وہ اسلام آباد حکومت پر دباء ڈالے گی کہ معذول چیف جسٹس اور عدلیہ کو جلد از جلد بحال کیا جائے۔
پرویز مشرف کے صدارتی عہدے سے مستعفٰی ہونے کے بعد ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بابر بلال نے کہا کہ پاکستانی وکلاء کی تحریک اس وقت مکمل نہیں ہوتی جب تک تین نومبر کو پرویز مشرف کی طرف سے معذول کئےجانے والےچیف جسٹس اور دیگر ججوں کو بحال نہیں کر دیا جاتا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ کے بحران کا ذمہ دار اب تک پرویز مشرف کو سمجھا جاتا تھا تاہم اب یہ ذمہداری حکمران جماعتوں پر آئد ہوتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کے کیا ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے جانے کے بعد آمریت کے خاتمے کی امید کی جاسکتی ہے؟ بابر بلال کا کہنا تھا کہ آئندہ کے حالات کا دارومدار اس امر پر ہوگا کہ سیاست دان کتنی زمہداری اور دانشمندی کا ثبوت دیتے ہیں۔ اگر سیاستدانوں نے ماضی کی طرح غلطیاں کیں تو دشواریاں ہوسکتی ہیں۔
کیا عدلیہ کی بحالی کے بعد چوٹی کے سیاستدانوں پر لگے ہوئے کرپشن چارجز کا احتساب متوقع ہے؟ اس بارے میں بابر بلال نے کہا کہ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ عدلیہ ان ہی بد عنوانیوں کا فیصلہ کر سکے گی جن کے بارے میں مقدمات اس تک پہنچیں گے۔ تاہم ہائی کوٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ کے ایڈووکیٹ بابر بلال نے امید ظاہر کی ہے کہ عدلیہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گی۔ پاکستانی معاشرے کی بد حالی کی ایک اہو وجہ وہاں کا ناقص تعلیمی نظام ہے۔ آمریت ہو یا جمہوریت تعلیمی ترقی کی طرف حکمرانوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں تعلیم کی صورتحال کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے آل پاکستان گورنمنٹ اسکول ٹیچرز ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ابرار حسین نے کہا کہ پرویز مشرف نے بنیادی تعلیمی نظام میں بہتری کے لئے چند اچھے کام کیے تھے۔ مثلاٍ ٹیچروں کی تنحواہوں میں اضافہ اور مزید مراعات دینے کا عمل۔ اسکے علاوہ پاکستان کے سب سے اہم اقتصادی اور صنعتی شہر کراچی نے گزشتہ تین برسوں میں جتنی ترقی کی اسکی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ابرار حسین نے کہا کہ سابق صدر مشرف نے شروع شروع میں بہت سے اچھے کام کئے تاہم عدلیہ کی معذولی اور ملک کے جمہوری اداروں کی آزادی کو انھوں نے جس طرح پامال کرنا شروع کیا اس نے ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ تاہم آل پاکستان گورنمنٹ اسکول ٹیچرز ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ابرار حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا طبقاتی نظام دراصل پاکستان کے تعلیمی شعبے میں بھی بہت زیادہ اثرانداز ہوا ہے اور جب تک اس بنیادی مسئلے کا حل نہیں نکالا جاتا تب تک پاکستان تعلیمی میدان میں ترقی نہیں کر سکتا۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کے تعلیمی شعبوں میں انگریزی زبان کا غلبہ اور قومی زبان اردو سے روز بروز بڑھتی ہوئی دوری پاکستان کے تعلیمی معیار کو مزید پست کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ مراعت یافتہ طبقوں کے بچوں کے لئے مہنگی فیسوں والے ماڈرن اسکول اسی فیصد عوام کے لئے بیکار ہیں کیونکہ وہ اتنی مہنگی فیسوں کی ادائیگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ابرار حسین کے مطابق پاکستان میں آمریت ہو یا نام نہاد جمہوریت تعلیم کا شعبہ ہر حکومت نے نظر انداز کیا ہے۔
انیس سوء ننانوے میں اس وقت کے وزیرِ اعظم اور عوام میں خاصے غیر مقبول وزیر اعظم میاں نواز شریف کا تختہ الٹ کر برسر اقتدار آنے والے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی آمد پر پاکستانی عوام نے خوشیاں منائیں، بھنگڑے ڈالے گئے اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ اُسی پرویز مشرف کے صدر کے عہدے سے مستعفی ہونے پر ملک میں یوم نجات منایا گیا۔ پرویز مشرف کے عروج و زوال کی داستان بہت طویل ہے جس میں کجھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ تاہم ماہرین اور مبصرین کا خیال ہے کہ گیارہ ستمبر سن دوہزار ایک کے واقعات کے بعد سے دھشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پرسابق صدر پرویز مشرف نے جو داخلہ اور خارجہ پالیسی اختیار کی وہ تو ان کی عوامی مقبولیت میں تیزی سے رونماء ہونے والی کمی اور ملک و قوم کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصانات کا باعث بنے ہی، تاہم تین ایسے اہم ترین عوامل ہیں جنہوں نے عوام میں پرویز مشرف کی مخالفت میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ ایک پاکستان کا اقتصادی بحران۔ ملکی قرضہ جات کا چالیس بلین ڈالر تک پہنچ جانا۔ دوسرا عوام میں بے حد مقبول پاکستان کے جوہری سائینسدان ڈاکٹر عبدل قدیر خان کو زیر حراست رکھنے کا عمل۔ تیسرا اور سب سے بڑا قدم جو پرویز مشرف کے اقتدار کے سورج کے غروب ہونے کا باعث بنا ہو تھا پاکستان کی عدلیہ پر لگائی جانے والی ضرب۔