1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج، عدالتی فیصلہ برقرار

شکور رحیم، اسلام آباد16 مارچ 2016

پاکستانی سپریم کورٹ نے آئین شکنی کے الزامات پر سنگین غداری کے ایک مقدمے کا سامنا کرنے والے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

Pakistan Pervez Musharraf
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرفتصویر: picture-alliance/dpa

پرویز مشرف کے وکلاء کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد اب سابق صدر پرویز مشرف علاج کے لیے جلد بیرون ملک روانہ ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاق کی دائر کردہ اپیل مسترد کر دی۔ تاہم عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت اور پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت اگر سابق صدر کو گرفتار کرتی ہیں یا ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنا چاہتی ہیں، تو یہ ان کا انتظامی اختیار ہو گا۔ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی واضح کیا کہ ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے سپریم کورٹ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

عدالت نے بظاہر اپنے حکم نامے میں یہ وضاحت اس لیے کی کہ مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت نے عدالتی حکم پر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈال رکھا ہے۔

خیال رہے کہ خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو اکتیس مارچ کو بیان دینے کے لیے عدالت میں طلب کر رکھا ہے۔ بدھ سولہ مارچ کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے لال مسجد کے نائب خطیب غازی عبدالرشید اور دیگر افراد کے قتل کے مقدمے میں پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو برقرار رکھا۔ عدالت نے اکیس فروری کو ریٹائرڈ جنرل مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور مقدمے کی سماعت آج سولہ مارچ تک کے لیے ملتوی کی تھی۔

دوسری جانب مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سابق جنرل مشرف کراچی میں ضیاء الدین ہسپتال سے اپنی رہائش گاہ روانہ ہوگئے ہیں۔ پرویز مشرف علیل ہونے کے سبب ضیاء الدین ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ ان کے وکلاء نے عدالتوں میں ان کی بیماری سے متعلق طبی رپورٹیں بھی جمع کرائی تھیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کے معاملے پر حکومت مبینہ طور پر سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کرنا چاہتی تھی تاہم عدالت نے یہ معاملہ اب بھی حکومت پر ہی چھوڑ دیا ہے۔

پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم (تصویر) کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے کے راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں بچیتصویر: Getty Images

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عدالت نے اس مواد پر اور قانونی نکات پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے، جو اس کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ آپ نے آج کی سماعت میں دیکھا ہو گا کہ اٹارنی جنرل کا طرز عمل کتنا محتاط اور ایسا تھا، جیسے وہ خود کو اس مقدمے کی پیروی سے روک رہے ہوں۔ تو ایسے میں عدالت کے پاس کیا راستہ رہ جاتا ہے، سوائے اس کے کہ وہ قانون کے مطابق فیصلہ دے اور عدالت نے ایسا ہی کیا۔ بس اس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اس کا ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے یا نکالنے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کام وفاقی حکومت کا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سارے معاملے میں کس ردعمل کا اظہار کرتی ہے اور یہی حکومتی ردعمل پرویز مشرف کے مستقبل کے لیے اہم ہوگا۔

پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے کے راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں بچی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے مؤکل مقدمات کی وجہ سے گھبرا کر ملک سے نہیں جانا چاہتے بلکہ وہ علاج کی غرض سے جا رہے ہیں اور واپس آ کر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں