1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ، سپريم کورٹ ميں درخواست جمع

شکور رحيم، اسلام آباد18 نومبر 2013

پاکستان میں وفاقی حکومت نے سابق فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے سپریم کورٹ سے خصوصی عدالت کے ججوں کی نامزدگی کی درخواست کر دی ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

پیر کے روز سیکرٹری قانون کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام لکھے گئے ايک خط میں کہا گیا ہے کہ پرويز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلایا جائے اور اس مقصد کے لیے 1976ء کے ايکٹ کے تحت ايک خصوصی عدالت کا قیام عمل میں لایا جانا چاہيے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اس عدالت کے لیے مختلف ہائی کورٹس کے تین ججوں کی نامزدگی درکار ہے اور چونکہ ملک میں اس وقت پانچ ہائی کورٹس ہیں، اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ کسی تنازعے سے بچنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان بذات خود ان ججوں کو نامزد کریں۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ عدالت اسلام آباد میں قائم کی جائے گی اور چیف جسٹس تینوں ججوں میں سے اس عدالت کے سربراہ کو بھی نامزد کر دیں۔

وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اتوار کی شام ایک پریس کانفرنس میں 3 نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ اور خلاف آئين اقدامات کرنے پر جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے مختلف آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے رواں برس 26 جون کو مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی ہدایت دی تھی۔ اس کے بعد حکومت نے پرويز مشرف کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کی ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ وزیر داخلہ کے مطابق اس کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر کے رپورٹ وزارت داخلہ میں جمع کرا دی ہے۔

3 نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ پر مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گيا ہےتصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images

ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے اپنی اس رپورٹ میں ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے جن 25 لوگوں سے تفتیش کی، ان میں سے صرف ایک سابق جنرل اور پنجاب کے گورنر خالد مقبول شامل ہیں جبکہ باقی تمام افراد سویلین ہیں۔ تاہم 3 نومبر کے بعد وکلاء تحریک کے سرگرم رہنما حامد خان کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت چاہے تو مزید افراد سے تحقیقات کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جو عدالت قائم ہو گی اس کے سامنے بھی درخواست کر سکتے ہیں کہ اتنے لوگوں سے تحقیقات کیں، جبکہ باقی تحقیقات سے انکاری تھے۔ آپ (عدالت) حکم جاری کریں تا کہ ان کے بیانات ریکارڈ کیے جا سکیں۔ کوئی ایسا امر مانع نہیں ہے کہ جو لوگ بچ گئے ہیں ان کی شہادت ریکارڈ نہ کی جا سکے۔‘‘

پرویز مشرف اس وقت اسلام آباد کے مضافات میں اپنے فارم ہاؤس پر موجود ہیں۔ رواں برس مارچ میں پاکستان آنے کے بعد انہیں اکبر بگٹی سميت بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمات کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند رکھنے اور لال مسجد کے نائب خطیب غازی عبدالرشید قتل کیس میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے عدالتوں سے ان تمام مقدمات میں ضمانت حاصل کر لی تھی۔

پرویز مشرف نے بیرون ملک جانے کے لیے اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دے رکھی ہے جس کی سماعت 20 نومبر کو ہوگی۔ جنرل مشرف نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اپنی علیل والدہ کی تیمار داری کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔ ان کے خلاف فوجداری مقدمے میں ایک درخواست گزار شیخ احسن الدین کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی بھی صورت ’ڈکٹیٹر‘ کو ملک سے بھاگنے نہ دے۔ انہوں نے کہا، ’’ڈکٹیٹر کے خلاف مقدمہ چلا کر اسے سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی طالع آزما آئین توڑنے کی جرات نہ کر سکے۔‘‘

پرویز مشرف پر الزام ثابت ہونے کی صورت میں انہیں سزائے موت یا عمر قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تاہم بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ شروع ہوا تو ایک پنڈورا بکس کھل سکتا ہے جس میں اعلیٰ حاضر فوجی و سول افسران کے علاوہ سیاستدانوں اور سابق جرنیلوں کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔

حکومت مشرف کے خلاف مقدمے کے لیے ایک اسپیشل پراسیکیوٹر بھی مقرر کرے گی جو کہ ان کے خلاف استغاثہ کا کردار ادا کرے گا۔ ذرائع کے مطابق راولپنڈی کے ایک وکیل ذوالفقار عباس نقوی کو پیر کے روز اسپیشل پراسیکیوٹر مقرر کر دیا گیا ہے۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایک ایسے موقع پر پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا اعلان کرنا جب راولپنڈی شہر میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے ملک بھر میں سیکورٹی کی صورتحال غیر یقینی ہو چکی ہے محض حالات سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں