1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی درخواست مسترد

30 جولائی 2009

پاکستانی سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر 2007ء کو اعلیٰ ججوں کو برطرف کرنے اور ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کرنے کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے سے متعلق مقدمے کے مدعی حامد خان کی درخواست رد کردی۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرفتصویر: dpa - Report

ججوں کی برطرفی سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران حامد خان ایڈووکیٹ نے جمعرات کے روز اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کی معطلی پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جانا چاہئے۔

حامد خان نے کہا کہ سابق فوجی صدر یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا گیا، لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس پر چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ جنرل ریٹائرڈ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری نہیں کر سکتی، کیونکہ اس معاملے کو جانچنے کا حق صرف منتخب پارلیمان کو حاصل ہے کہ تین نومبر 2007ء کے بعد آئین سے متصادم کون کون سے آرڈیننس جاری کئے گئے۔

سپریم کورٹ میں مشرف کے خلاف درخواست مستردتصویر: AP Photo

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت سپریم ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی البتہ آئین کی تشریح کا اختیار ضرور رکھتی ہے۔ چیف جسٹس نے اس امر پر بھی زور دیا کہ عدالت اداروں کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط بنانے پر یقین رکھتی ہے۔ اس مقدمے کی پیروی کرنے والے ایک اور وکیل اکرم شیخ نے بھی عدالت کے سامنے اپنے دلائل میں تجویز دی کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان سے نیا حلف لیا جائے جس میں وہ آئین کو نہ توڑنے کا عہد کریں۔

بعد ازاں اکرم شیخ نے صحافیوں کو بتایا: "چونکہ جنرل ریٹائرڈ مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے، اور فاضل عدالت کے سامنے براہ راست ابھی تک آرٹیکل چھ کا یا کوئی اور مقدمہ بھی نہیں آیا۔ جنرل مشرف کا معاملہ اس وقت تک فوج کے سپرد کیا جائے جب تک کوئی مقدمہ عدالت کے سامنے نہیں آتا اور ان کو ہدایت کی جائے کہ وہ تین نومبر 2007ء کے دن کئے جانے والے بے جواز اقدامات اور آئین شکن فیصلوں کے خلاف کارروائی کریں۔"

دریں اثناء پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ملکی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ جمعہ کے روز اس مقدمے میں اپنے دلائل مکمل کر لیں، تا کہ عدالت اس حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچ سکے۔

آئینی ماہرین کے مطابق اگرچہ اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ کو اس کیس میں اپنے دلائل ابھی دینا ہیں، تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عدالت عظمیٰ موجودہ نظام میں اکھاڑ پچھاڑ سے زیادہ مستقبل میں ایمرجنسی کے نفاذ اور فوجی بغاوت جیسے واقعات کی پیش بندی اور تمام سرکاری اداروں کو ان کے آئینی دائرہ اختیار تک محدود رکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ ان ماہرین کے بقول پاکستان کے موجودہ حالات میں ایسا طرز عمل مستقبل کے بہتر امکانات کی نشاندہی کرتا ہے۔


رپورٹ: امتیاز گل

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں