مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک میں شیعہ مسلمان یوم عاشور کے سلسلے میں بڑے بڑے اجتماعات میں شریک ہیں۔ یہ افراد پیغمبرِ اسلام کے نواسے کی برسی کا سوگ منا رہے ہیں۔
اشتہار
دنیا بھر میں مسلمانوں کی قریب ایک اعشاریہ آٹھ ارب کی آبادی میں اہل تشیع مسلمانوں کی تعداد دس فیصد کے لگ بھگ ہے، جو ہجری سال کے پہلے ماہ یعنی محرم الحرام میں نواسہ پیغمبر اسلام امام حسین کے قتل کا سوگ مناتے ہیں۔ معرکہ کربلا میں امام حسین اپنے اہل خانہ اور حامیوں کے متعدد افراد کے ہم راہ قتل کر دیے گئے تھے۔
اہل تشیع کے یہ اجتماعات سنی شدت پسند گروپوں کے دہشت گردانہ حملوں کا بھی آسان ہدف ہوتے ہیں اور ماضی میں ایسے اجتماعات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
ایران، جسے مشرقِ وسطیٰ میں اہل تشیع کی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے، عزاداری کے کئی اجتماعات ہوئے، جن میں سوگ واران زنجیرزنی کرتے نظر آئے۔ ایران کے سرکاری ٹی وی چینل پر ملک کے مختلف مقامات پر عزاداری کی مختلف محافل کے مناظر بھی پیش کیے گئے۔
ایران میں عاشور ایک ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے، جب امریکا جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران کے خلاف دوبارہ سخت اقتصادی پابندیوں کا نفاذ کر رہا ہے جب کہ ایرانی کرنسی ’ریال‘ انتہائی بدحالی کا شکار ہے۔ اس موقع پر ان اجتماعات کو ’قربانی‘ اور ’مشکل صورت حال کے خلاف جدوجہد‘ کے خلاف کھڑے ہو جانے کے پیغام کے ابلاغ کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی شیعہ کمیونٹی کا ملک گیر احتجاج اور دھرنے
بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی ایک بسں پر حملے اور ہلاکتوں کے خلاف کوئٹہ، کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج جاری ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کراچی میں ایک شیعہ مسلمان لڑکی منگل کے روز ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں ہونے والی اس فرقہ ورانہ کارروائی میں بڑی تعداد میں شیعہ زائرین سمیت کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ان مظاہروں میں خواتین، مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
تصویر: Reuters
شیعہ کمیونٹی کی طرف سے لاہور میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ شرکاء کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images
کوئٹہ میں علمدار روڈ کے قریب ٹائر جلاتے ہوئے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
تصویر: /AFP/Getty Images
ہزارہ شیعہ کیمونٹی کے سینکڑوں افراد نے مستونگ مں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دھرنا دے رکھا ہے۔ اس احتجاج میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو پہلے بھی متعدد مرتبہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسی طرح کے احتجاج کے نتیجے میں صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
مجلس وحد ت المسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی کے بقول، ’’ہم اپنا دھرنا جاری رکھیں گے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کا نمائندہ آئے اور اپنے ساتھ ٹارگٹڈ آپریشن پر عمل درآمد کے حوالے سے ضمانت پیش کرے، تب ہی ہم دھرنا ختم کر کے شہداء کی تدفین کریں گے۔‘‘
تصویر: G. Kakar
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بدھ کو علمدار روڈ کا دورہ کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے دھرنے میں شامل اراکین سے دھرنا ختم کرنے کو کہا تاہم مظاہرین نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیعہ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ کوئٹہ کی مختلف امام بارگاہوں کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
9 تصاویر1 | 9
ایران کے ہم سایہ ملک پاکستان میں بھی شیعہ مسلمانوں کے اجتماعات کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پولیس اور خفیہ اداروں کی بھاری نفری تعینات ہے۔ اس موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں موبائل فون سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ محرم الحرام کی سوگواری تقریبات کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ کسی ناخوش گوار واقعے سے نمٹنے کے لیے پاکستانی حکام نے موٹرسائیکلوں پر ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
افغانستان میں بھی اس موقع پر مختلف شہروں میں اہم مساجد کے قریب ٹرکوں اور بڑی گاڑیوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ افغان حکام کا مقصد ان اقدامات کا مقصد کسی کار یا ٹرک بم حملے سے بچاؤ ہے۔