1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی افغانستان میں گیارہ بچوں کی ہلاکت

8 اپریل 2013

افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں 20 افراد کی ہلاکت کا بتایا گیا ہے۔ ان ہلاک شدگان میں 11 بچے بھی شامل ہیں۔ جھڑپ کا مقام افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریب واقع ہے۔

تصویر: REUTERS

امریکی اور افغان حکام نے مشرقی افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کے ساتھ ہونے والی ایک شدید لڑائی میں کم از کم 20 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق ہلاک شدگان میں گیارہ افغان بچے بھی شامل ہیں۔ ان بچوں کی ہلاکت کی وجہ لڑائی کے دوران کیا جانے والا ایک فضائی حملہ بتایا گیا ہے۔ لڑائی اس علاقے میں ہوئی جو پاکستانی سرحد سے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے داخلے کا ایک اہم مقام خیال کیا جاتا ہے۔

امریکی فوجی ذرائع کے مطابق ہوائی حملے کی درخواست بین الاقوامی فوج کی جانب سے کی گئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

امریکی اور افغان فوجوں کا مشترکہ آپریشن ایک اعلیٰ طالبان کمانڈر کے خلاف جمعے اور ہفتے کی درمیان رات شروع کیا گیا تھا اور ہفتے کے روز فائرنگ کے تبادلے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ لڑائی افغان صوبے کنڑ کے ضلع شیگال کے مقام شُلطان میں شروع ہوئی تھی۔ شُلطان نامی گاؤں کو پاکستان سے افغانستان میں داخل ہونے کے لیے ایک اہم گزرگاہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ گاؤں دشوار گزار پہاڑی دروں میں آباد ہے۔ وہاں مقامی کونسل کے سربراہ گُل پاشا نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ ہفتے کی صبح ہوتے ہی آسمان پر جنگی طیارے نمودار ہو گئے اور حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔

گل پاشا کے مطابق طالبان لیڈر اُس مکان میں تھا جس کو نشانہ بنایا گیا اور اسی میں عورتوں اور بچوں کے ہمراہ یہ سینئر طالبان کمانڈر مارا گیا۔ دوسری جانب کنڑ صوبے کی حکومت کے ترجمان واصف اللہ واصفی کے مطابق ہوائی حملے سے ایک مکان میں دس بچوں کے علاوہ ایک عورت بھی ہلاک ہوئی۔ واصفی کے مطابق دیگر پانچ خواتین زخمی ہیں۔ ہلاک ہونے والے بچوں کی عمریں ایک سے بارہ سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔

افغان وزارت دفاع کے مطابق کنڑ صوبے کے شیگال ضلع کے گاؤں شُلطان میں چھ طالبان عسکریت پسند بھی مارے گئے ہیں۔ وزارت دفاع کے مطابق ہلاک شدگان میں طالبان کے دو سینئر کمانڈر بھی شامل ہیں۔ کابل سے جاری کردہ اس بیان میں مرنے والے کمانڈروں کے نام علی خان اور گل رؤف بتائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ یہ دونوں عسکریت پسند صوبے کنڑ میں حملوں کی پلاننگ کے ساتھ ساتھ ان پر عمل پیرا ہونے میں بھی شریک ہوتے تھے۔

گزشتہ ہفتے کے دوران ستر سے زائد لوگ پرتشدد واقعات میں ہلاک ہوئےتصویر: picture-alliance/AP Photo

افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے دفتر نے بھی شیگال ضلع میں ہوائی حملے میں گیارہ بچوں کی ہلاکت کا ‌ذکر کیا ہے۔ افغان صدر نے خواتین اور بچوں والے گھر میں چُھپنے اور ان کو حملے میں ڈھال بنانے پر طالبان کی سخت مذمت کی ہے۔ افغان صدر نے ایک گنجان آباد علاقے پر غیر ملکی دستوں کے ہوائی حملے پر بھی تنقید کی ہے۔ رواں برس وسط فروری میں صوبہ کنڑ ہی میں کیے گئے ایک ہوائی حملے میں دس سویلین باشندے ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکی فوج نے بھی ہوائی حملوں کی تصدیق کر دی ہے۔ امریکی فوجی ذرائع کے مطابق ہوائی حملے کی درخواست بین الاقوامی فوج کی جانب سے کی گئی تھی۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف جاری بارہ سالہ جنگ کے دوران اتوار کے روز ختم ہونے والا ہفتہ خوفناک ترین اور کئی ہلاکتوں سے عبارت قرار دیا گیا ہے۔ ستر سے زائد ہلاکتوں کی تصدیق کی جا چکی ہے۔

افغانستان کے اندرونی حالات و واقعات کا رواں برس کے دوران عالمی طاقتیں بغور جائزہ لے رہی ہیں اور مبصرین کے مطابق اس کی وجہ اگلے سال غیر ملکی فوجوں کی اپنے اپنے ملکوں کو مجوزہ واپسی ہے۔ اگلے مہینے کابل حکومت کے لیے اہم ہیں کہ وہ کس طرح امن و سلامتی کو اُن صوبوں میں یقینی بناتی ہے جن کا کنٹرول اُسے تفویض کیا جا چکا ہے۔ مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ بین الاقوامی اتحادی افواج رواں برس کو افغان فوج کے لیے آزمائش یا ٹیسٹ کا عرصہ خیال کرتی ہیں کہ وہ کس طرح طالبان کے خطرے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

(ah/mm(AP

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں