مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کے فوجی امن مشن کا اختتام
31 دسمبر 2012
اس امن مشن کے ارکان کی مشرقی تیمور میں موجودگی کے دوران وہاں مسلح تنازعے سے لے کر ریاستی آزادی تک کا خونریز سیاسی سفر طے کیا گیا، جو بڑی تبدیلیوں والا ایک بہت مشکل عرصہ ثابت ہوا۔
مشرقی تیمور کے دارالحکومت دیلی سے ملنے والی خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس مشن کے قیام کی مدت کے دوران اقوام متحدہ کے قریب 1500 فوجی اور پولیس اہلکار وہاں تعینات رہے۔ اس مشن میں شامل فوجی دستے آج پیر کو اپنی تنصیبات پر لہرانے والے پرچم اتار لیں گے اور پرتگال کی فوج کے پانچ افسران سمیت باقی ماندہ امن فوجیوں کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
اے ایف پی کے مطابق اس امن مشن کے کامیاب اختتام کے دیگر انتظامی مراحل کی تکمیل کے لیے ایک ایسی ’لیکویڈیشن ٹیم‘ کچھ عرصے کے لیے وہاں رہے گی جو 79 افراد پر مشتمل ہو گی۔
مشرقی تیمور میں عالمی ادارے کے اس فوجی مشن نے وہاں سے اپنے ارکان کے انخلاء کا عمل اس سال اکتوبر میں ہی شروع کر دیا تھا اور تب وہاں نئے صدر اور ملکی پارلیمان کے کامیاب انتخابات کے پرامن انعقاد کے بعد سلامتی کی ذمہ داریاں بھی نیشنل پولیس کو منتقل کر دی گئی تھیں۔
مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کے اس امن مشن کا سرکاری نام United Nations Integrated Mission in Timor-Leste یا UNMIT ہے جس کی سربراہی فن لینڈ کے Reske-Nielsen کے پاس رہی۔ ریسکے نیلسین نے اس امن مشن کی تکمیل کے موقع پر کہا کہ مشرقی تیمور کے عوام اور رہنماؤں نے خود کو درپیش مشکلات کو حل کرنے اور بڑے چیلنجز کا سامنا کرنے میں غیر معمولی ہمت اور پختہ ارادوں کا مظاہرہ کیا۔
UNMIT کے سربراہ نے کہا کہ اگرچہ مشرقی تیمور میں ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے تاہم وہاں اقوام متحدہ کے مشن کا اختتام ایک ایسا تاریخی لمحہ ہے، جو اس وسیع تر پیش رفت کا اعتراف بھی ہے جو آج تک اس نوآزاد ریاست میں دیکھنے میں آئی ہے۔ مشرقی تیمور کا وہاں کی سرکاری زبان میں باقاعدہ نام Timor-Leste ہے۔ اس حوالے سے ریسکے نیلسین نے کہا کہ تیمور لیسٹے میں اس مشن کے اختتام کا یہ مطلب نہیں کہ دیلی اور اقوام متحدہ کے درمیان پارٹنرشپ ختم ہو گئی ہے۔
نیلسین نے مزید کہا، ’اب جب کہ مشرقی تیمور سے عالمی ادارے کے امن دستے رخصت ہو رہے ہیں، ہم باہمی تعلقات میں ایک ایسے نئے مرحلے کی طرف دیکھ رہے ہیں، جس میں پوری توجہ سماجی اور اقتصادی ترقی پر دی جا سکے‘۔ بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ مشرقی تیمور میں ایسے آثار بہت کم ہیں کہ وہاں دوبارہ خونریزی دیکھنے میں آ سکتی ہے تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اس خود مختار ریاست میں پولیس اور عدلیہ سمیت بہت سے عوامی ادارے ابھی تک بہت کمزور ہیں۔
اقوام متحدہ نے مشرقی تیمور کے ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ظہور میں اہم کردار ادا کیا۔ عالمی ادارے نے وہاں 1999ء میں اس ریفرنڈم کا انتظام کیا تھا، جس کے نتیجے میں وہاں انڈونیشیا کا 24 سالہ قبضہ ختم ہو گیا تھا۔ انڈونیشیا کے قبضے کے دوران قریب ایک لاکھ 83 ہزار افراد، جو تب اس خطے کی مجموعی آبادی کا چوتھائی حصہ بنتے تھے، مسلح لڑائی، فاقہ کشی یا مختلف بیماریوں کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اس امن مشن نے 2002ء تک مشرقی تیمور کی انتظامی طور پر نگرانی بھی کی تھی، اس کے بعد وہاں ایک خود مختار حکومت نے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
(mm / ah (AFP