مشرقی جرمن انقلاب لائپسگ سے شروع ہوا
8 ستمبر 2010کرسچيان فيوہرر،1980ء سے لے کر سن 2008ء تک لائپسگ کے پروٹسٹنٹ نکو لائی چرچ ميں پادری رہے۔ وہ مارچ 2008ء ميں اس عہدے سے ريٹائر ہوئے۔
ڈوئچے ويلے: ديوار برلن ٹوٹنے سے ٹھيک ايک ماہ قبل، نواکتوبر سن انيس سو نواسی کو لائپسگ ميں مشرقی جرمنی کا تب تک کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا تھا، جس کی پيشگی اطلاع نہيں دی گئی تھی۔ اس ميں ستر ہزار افراد نے حصہ ليا تھا۔ مشرقی جرمنی کی حکومت اتنی بڑی تعداد ميں مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف کچھ نہيں کر سکی تھی۔ اتنے زيادہ لوگوں کو کس طرح اکٹھا کيا جا سکا تھا؟
کرسچيان فيوہرر: يہ سوال اکثر کيا جاتا ہے۔ 1982ء کے بعد سے ہر پير کو نکولائی چرچ ميں دعائيں مانگی جا رہی تھيں۔ اس طرح وہ مشرقی جرمنی ميں تنقيد پسند لوگوں کے جمع ہونے کی جگہ بن گيا تھا جہاں وہ حکومت پر تنقيد اور اپنی شکايات کا اظہار کرسکتے تھے ۔ مشرقی جرمنی ميں عموماً اس کی ممانعت تھی۔ يہ خبر ہر جگہ پھيل گئی۔ آٹھ مئی سن انيس سو نواسی کے بعد سے حکومت نے نکولائی چرچ جانے والی سڑکوں کو بند کر دیا ۔ اس کے بعد يہاں آنے والوں کی تعداد ميں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گيا۔ رياستی طاقت کا خيال تھا کہ خوفزدہ کرنے سے آنے والے کم ہو جائيں گے، ليکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ چار ستمبر کی چرچ سروس کے موقع پر مغربی دنيا کی ٹيليوژن ٹيموں کو پورے شہر ميں فلمبندی کی اجازت تھی۔ جب ہم باہر نکلے تو وہ سب چرچ کے سامنے کھڑے تھے۔ ہمارے لوگوں نے ايک بينر کھولا، جس پر لکھا تھا: ايک کھلے ملک کے لئے،جس کے انسان آزاد ہوں۔ يہ بينر شاید پندرہ سيکنڈ کے لئے ہی ہوا ميں لہرايا جا سکا تھا کہ مشرقی جرمنی کی خفيہ سروس اشٹازی کے کارکنوں نے اُسے نیچے گھسیٹ ليا۔ يہ سب کچھ ٹی وی کيمروں کے سامنے ہوا۔ شام کو اس واقعے کو خبروں ميں جگہ ملی۔ اس طرح نہ صرف مغربی جرمنی والوں کو يہ معلوم ہو گيا کہ مشرقی جرمنی ميں کيسی عجيب وغريب باتيں ہو رہی ہيں بلکہ مشرقی جرمنی کے لوگوں پر بھی صورتحال واضح ہو گئی کيونکہ ہم سب ہی مغربی جرمن ٹيليوژن کے پروگرام ديکھتے تھے۔
اس کے بعد سات اکتوبر سن انيس سو نواسی کا دن آيا، مشرقی جرمنی کے قيام کی چاليسويں سالگرہ کا دن۔ اس دن لائپسگ ميں نکولائی چرچ کے سامنے سينکڑوں گرفتاریاں کی گئيں۔ ہونیکر نے خود يہ کہا تھا کہ نکولائی چرچ کو بند ہی کرنا ہوگا۔ اُس دن پوليس پہلی بار ايک ايسے انداز ميں تھی کہ جس سے ہم اس سے پہلے واقف نہيں تھے۔ پولیس اہلکار لڑاکا يونيفارم ميں ملبوس تھے، اُن کے ہاتھوں ميں لاٹھياں اور اُن کے ساتھ کتے بھی تھے۔ اُنہوں نے دوپہر سے لے کر شام تک پورا دن مظاہرين کو بری طرح سے مارا۔ پير نو اکتوبر کو يہ کہا گيا کہ مظاہروں کو کچل ديا جائے گا، چاہے اس کے لئے اسلحہ ہی کيوں نہ استعمال کرنا پڑے۔ آٹھ اکتوبر کی شام،جب ڈاکٹر چرچ سروس ميں شرکت کے لئے آئے تو اُنہوں نے بتايا کہ ہسپتالوں ميں گوليوں کے زخموں کے علاج کے وارڈز کھولنا پڑے تھے۔ يوں، نو اکتوبر کا دن، ايک ہولناک خوف کے ساتھ قريب آ گيا ۔
ڈوئچے ويلے: تو نو اکتوبر کو عوامی مظاہروں کی کيا صورتحال رہی؟
کرسچيان فيوہرر: شہر کے مرکزی حصوں کے کليساؤں ميں چھ ہزار سے لے کر آٹھ ہزار افراد تک جمع ہو گئے تھے۔ اس سے زيادہ کی گنجائش نہيں تھی ليکن جمع ہونے والوں کی تعداد ستر ہزار تھی۔ ہم چرچ سے باہر نہيں آ سکتے تھے۔ وہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب کے ہاتھوں ميں موم بتياں تھيں۔ اور موم بتی کا مطلب ہوتا ہے، عدم تشدد۔ اگر آپ ہاتھوں ميں ڈنڈے يا پتھر پکڑے ہوں تو پھر موم بتی نہيں اُٹھا سکتے۔ ايس ای ڈی کے ايک رکن نے بعد ميں بتايا : ہم نے ساری منصوبہ بندی کر لی تھی۔ ہم ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تيار تھے، ليکن جس کے لئے تيار نہيں تھے ، وہ موم بتياں اور دعائيں تھيں۔ پوليس کو اس کے خلاف کارروائی کی ہدايات نہيں دی گئيں تھيں۔ اگر پوليس پر پتھراؤ يا حملہ کيا جاتا تو اس کے خلاف کارروائی کی ہدايات تھيں۔ اس کے بعد وہی کچھ ہوتا جو ہميشہ ہوتا تھا۔ ليکن ٹينک پيچھے ہٹ گئے۔ جب وہ گولی چلائے بغير ہی چلے گئے تو ہم نے سمجھ ليا کہ اب مشرقی جرمنی وہ نہيں رہا، جو آج صبح تک تھا۔ ہميں اپنے علم سے زيادہ اس بات کا احساس تھا کہ کوئی بڑی بات واقع ہو چکی ہے ۔ ليکن اسے صحيح طرح سے ہم بعد ہی ميں سمجھ سکے۔
ڈوئچے ويلے: آپ نے ہمیشہ عدم تشدد کا پرچار کيا اور مظاہرين کو ہمت دلائی کہ وہ فوج سے ہراساں نہ ہوں۔ آپ کو يہ کيسے يقين تھا کہ صورتحال پُر امن رہےگی؟
کرسچيان فيوہرر: ہميں اس بات کا قطعی يقین نہيں تھا۔ ہميں رات دن خوف تھا ليکن ہمارا عقيدہ خوف سے زيادہ طاقتور تھا۔ ہميں يقین تھا کہ عدم تشدد وہ واحد حربہ تھا، جسے ہم استعمال کر سکتے تھے۔ جس لمحے ہی ہم طاقت استعمال کرتے، ہم فريق مخالف ہی کی طرح ہو جاتے اور پھر خدائی برکت ہم سے منہ موڑ ليتی۔ ميں نے امن کی دعاؤں ميں نوجوانوں کو اس کی تعليم دی تھی اور حيرت انگيز طور پر اُنہوں نے اسے سمجھ ليا تھا اور تشدد سے گريز کيا تھا۔ جس بات نے مجھے بہت متاثر کيا، وہ يہ ہےکہ اس غير عيسائی ملک ميں عوام نے عدم تشدد کے نعرے لگائے اور اُن پر عمل بھی کيا۔ يہ انقلاب خون بہائے بغير ہوا تھا۔
ڈوئچے ويلے: اس کا مطلب يہ ہے کہ لائپسگ کے بغير مشرقی جرمنی ميں پرامن انقلاب ممکن نہيں تھا؟
کرسچيان فيوہرر: ميرے خيال ميں نہیں۔ يہاں کچھ ايسی باتيں تھيں جو ملک میں دوسری جگہوں پر نہيں تھیں: ايک لمبے عرصے سے ہر ہفتے يہاں امن کے لئے دعائيں کی جا رہی تھيں۔ ملک سے باہر سفر کے طالب طاقتور گروپ تھے اور ہمارے درميان اتحاد تھا کہ وہ ہمارے چرچ کی چھت تلے ٹھہرے۔ يہ وہ باتيں ہيں، جو دوسری جگہوں پر موجود نہيں تھيں۔ پھر يہاں پورے مشرقی جرمنی سے اتنی بڑی تعداد ميں لوگ آنے لگے۔ نو اکتوبر کہ يہاں صرف لائپسگ اور سیکسنی صوبے ہی سے نہيں، بلکہ پوری مشرقی جرمنی سے عوام آئے تھے۔ نکولائی چرچ ميں پورے مشرقی جرمنی کی نمائندگی تھی۔ لائپسگ کے بغير نہ تو نو نومبر سن انيس سو نواسی ہوتا اور نہ ہی تين اکتوبر انيس سو نوے۔
ڈوئچے ويلے: آج اس پر امن انقلاب ميں سے مشرقی جرمنی ميں کیا باقی بچا ہے؟
کرسچيان فيوہرر: ميرے خيال ميں ہميں آج بھی اُسی ہمت اور اخلاقی جرت کی ضرورت ہےکہ ہم يہ نہ کہيں کہ جو ذمہ دار ہيں، وہ خود ہی سب کچھ کر ليں گے بلکہ يہ کہ ہم خود ملک کی ذمہ داری سنبھاليں۔ ہم جرمنوں نے فضول جگہوں پر قربانياں دی ہيں۔ وقت آ گيا ہے کہ ہم صحيح جگہ پر قربانی ديں اور اپنی توانائياں صرف کريں، مشکلات کا بوجھ اٹھائیں، اس متحدہ جرمنی کے لئے، اس خوبصورت ملک، اس جمہوريت کے لئے، جسے ہم نے بہت ہمت اور جان کوحقيقی خطرے ميں ڈال کر بڑی مشکل سے حاصل کيا ہے۔ اب ہميں اس کی تشکيل بھی کرنا چاہئے۔ ايسا ہم انتخابات ميں بڑی تعداد ميں شرکت کے ذريعے بھی کر سکتے ہيں کيونکہ سن انيس سو نواسی کے موسم خزاں ميں ايک مطالبہ يہ بھی تھا کہ آزادانہ انتخابات۔ اب ہميں يہ آزادی حاصل ہے۔
ڈوئچے ويلے: آپ يہ کہتے ہيں کہ جرمنی، ايک خوبصورت ملک، اچھی جمہوريت، لیکن اس کے باوجود آپ نے جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے عمل پر شديد تنقید بھی کی۔ آپ کے خيال ميں اس ميں کیا غلطياں کی گئیں؟
کرسچيان فيوہرر: جرمنی کے اتحاد کو ممکن بنانا، جہاں بھی اس کا موقع ملے، يہ پيشکش گورباچوف نے جولائی سن انيس سو نوے ميں قفقاز ميں کی تھی۔ اسے فوراً قبول کر لینا چاہئے تھا۔ ليکن ہمیں اتحاد کو ذمہ داری سے مکمل کرنے کے لئے زيادہ وقت کی ضرورت تھی۔ میرے ذہن ميں کئی اعتراضات ہيں، تين اکتوبر کے بجائے نو تومبر کو قومی تعطيل ہونی چاہئے تھی۔ اس سے مشرقی جرمنی کے عوام کے ذہنوں ميں زيادہ خود اعتمادی پيدا ہوتی،کيونکہ يہا ں مشرقی جرمنی ميں، باہر سے مدد کے بغیر اتحاد کے لئے حالات پيدا کئے گئے تھے۔ دوسرے يہ کہ اتحاد کے بعد ملک کا نام وفاقی جمہوريہٴ جرمنی نہيں رہ سکتا۔ ميرے خيال ميں يہ سن انيس سو انچاس سے لے کر انیس سو نواسی تک جرمنی کا ايک حصہ تھا۔ ذرا تصور تو کيجئے کہ اگر ہم يہ کہتے کہ اتحاد کے بعد ملک کا نام مشرقی جرمنی ہونا چاہئے، تو ہميں نفسياتی علاج کے قابل سمجھا جاتا۔ اس طرح مغربی جرمنوں کے ذہن ميں يہ تاثر پيدا ہوا کہ ہمارا يہی نام ہے، ہم ايسے ہی رہيں گے، ہم مشرقی جرمنی کی بحالی و درستگی کا کچھ کام کريں گے اور پھر سب کچھ صحيح ہو جائے گا۔ ليکن ايسا نہيں تھا۔ اس کے علاوہ مسئلہ قومی ترانے کا بھی ہے۔ نازيوں نے آنے والے تمام ادوار کے لئے اس نغمے کی اس طرح سے تذليل کر دی ہے اور اسے اس طرح گندگی ميں لتھیڑ ديا ہے، يہ قومی ترانہ نہیں بن سکتا۔ مغرب کو کون سی نئی چيز ملی ہے۔ بس کچھ نئے پوسٹ کوڈ اور کچھ نئے کار نمبر ليکن يہاں مشرق ميں تو سب کچھ تبديل ہو چکا ہے۔ اس کا نتيجہ اچھا نہیں نکل سکتا تھا۔ يہ وہ کچھ باتيں ہيں جو اتحاد کے لئے مشکل ہيں۔
ڈوئچے ويلے:نکو لائی چرچ ميں دعائيں اب بھی مانگی جاتی ہيں، افريقہ کے لئے، يا جين ٹيکنالوجی سے پاک زراعت کے لئے۔ کيا يہ بہتر نہيں ہوتا کہ ہر ہفتے ايک الگ مقصد کے بجائے کسی ايک بڑی برائی کے خلاف دعائيں مانگی جاتيں؟
کرسچيان فيوہرر: ہم ہر سال بے روزگاری کے موضوع پر امن کے لئے دعائيں کر تے ہيں۔ ہم نے سن 1992ء ميں نکولائی چرچ ميں ’’بے روزگاروں کے لئے اميد‘‘ کے نام سے ايک مکالمتی گروپ قائم کيا۔ کئی ہفتوں تک مظاہروں کا انتظام بھی کيا گیا۔ عوام ميں اس سلسلے کی بڑی تعريف کی جاتی ہے۔ نيو فاشزم کے خلاف بھی ہميشہ کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ ہیمبرگ کے ايک نيو نازی نے سن دوہزار چودہ تک ہر يکم مئی اور سات اکتوبر کو شہر لائپسگ ميں نازيوں کے جلوس نکالنے کی درخواست داخل کی ہے۔ سن دوہزار ايک سے سن 2007ء تک اُس نے ان جلوسوں ميں حصہ بھی ليا۔ ہم نے چرچ کی طرف سے ہميشہ نازيوں کے خلاف جلوس نکالے، کسی تشدد کے بغير۔ آخر کار سن 2007ء ميں اس نئے نازی نے ہار مان لی۔ ہم دوسرے شہروں ميں بھی فعال ہيں۔ مثال کے طور پر نازی ہميشہ صوبے سکیسنی کے شہر کولڈِٹس ميں جاتے تھے۔ شہر پر اُن کی غنڈہ گردی کی وجہ سے خوف طاری رہتا تھا۔ ہم نے ’’ايک شہر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے‘‘ کے نعرے کے تحت شہر والوں کے ساتھ مل کر امن کی دعائيں کیں اور پادريوں نے مختلف انجمنوں کے ساتھ مل کر بھی بہت کچھ کام کيا۔
ڈوئچے ويلے:تو کيا اب نیو نازی، دائيں بازو کے انتہا پسند، شہر کولڈٹس ميں نظر نہيں آتے؟
کرسچيان فيوہرر: وہ وہاں ضرور آتے ہوں گے، ليکن اگر عوام اُن سے اتنے خوفزدہ نہ ہوتے تو يہ ايک بڑا قدم ہوتا۔ اہم بات يہ ہے کہ عوام چند افراد کی دہشت گردی سے خائف نہ ہوں، جو ہنگامے کرتے اور يہ تاثر ديتے ہيں کہ جيسے وہ بہت طاقتور ہوں۔ درحقيقت وہ عوام کے خوف ہی پر زندہ ہيں اور اس ڈر کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ يہی بات بے روزگاری اور انسانوں کے لئے مشکلات پيداکرنے والی تمام باتوں کے متعلق کہی جاسکتی ہے۔ اور اس کے لئے دعا، اب بھی ايک زبردست حربہ ہے۔
ترجمہ: شہاب احمد صدیقی / ادارت: امجد علی