مشرقی غوطہ، باغیوں کا آخری ٹھکانہ شدید بمباری کی زد میں
عاطف توقیر
7 اپریل 2018
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام کی حکومتی فورسز نے دمشق کے نواح میں واقع مشرقی غوطہ میں باغیوں کے زیرقبضہ آخری مضبوط ٹھکانے پر بمباری میں شدت پیدا کر دی ہے جب کہ اب تک درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
اشتہار
شامی تنازعے پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق مشرقی غوطہ میں دوما کا قصبہ جو اس علاقے میں باغیوں کا آخری مضبوط ٹھکانا ہے، سرکاری فورسز کی جانب سے شدید بمباری کی زد میں ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق سرکاری فورسز فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ بھاری توپ خانے کا استعمال بھی کر رہی ہیں جب کہ زمینی فورسز بھی دوما میں باغیوں کے خلاف اس آپریشن میں پیش پیش ہیں۔
ننھے ہاتھ، بھاری منافع: تُرکی میں چائلڈ لیبر
تعلیم کے بجائے مزدوری: تُرکی میں لاکھوں شامی تارکین وطن کے بچے اسکول نہیں جاتے۔ چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود بہت سے بچے یومیہ بارہ گھنٹوں تک مزدوری کرتے ہیں۔ ترکی ميں سلائی کے ايک کارخانے کی تصویری جھلکیاں۔
تصویر: DW/J. Hahn
کام کا ڈھیر لگا ہوا ہے
خلیل کی عمر 13 سال ہے اور اس کا تعلق دمشق سے ہے۔ ترک شہر استنبول کے علاقے ’باغجیلار‘ میں واقع سلائی کے کارخانے میں خلیل ہفتے کے پانچ دن کام کرتا ہے۔ اس علاقے ميں سلائی کے بیشتر کارخانوں میں زيادہ تر خلیل کی طرح کے بچے ہی کام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ساتھ کام کرنے والے بچے
اس ورکشاپ میں سلائی مشینیں بلا ناغہ چلتی ہیں۔ یہاں کام کرنے والے پندرہ ملازمین میں سے چار بچے ہیں، جن کا تعلق شام سے ہے۔ ترکی میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے شعبے میں وسیع پیمانے پر بچوں کی مزدوری کی صورت ميں غیر قانونی کام جاری ہے۔ نو عمر بچوں سے نہ صرف کم اجرت پر مزدوری کرائی جاتی ہے بلکہ کاغذات اور کسی بھی قسم کے تحفظ کے بغير کام کرایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
اسکول جانےسے محروم بچے
سوتی کے کپڑے کو چھانٹتے ہوئے 13 سالہ خلیل کہتا ہے، ’’میں مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتا۔‘‘ یہاں خواتین کے انڈر گارمنٹس بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ چھانٹنا، کاٹنا اور سینا، خلیل کے ساتھ ایک نوجوان خاتون بھی کام کرتی ہيں۔ خلیل اپنے آبائی ملک شام میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا لیکن خانہ جنگی کی باعث خلیل کو اپنا مکان اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ اب خلیل اسکول جانے کے بجائے سلائی کے کارخانے میں کام کر رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
استحصال یا مدد؟
ترکی میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازمت دینے پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس بات سے کارخانے کا مالک بخوبی واقف ہے، اسی لیے وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ ’میں بچوں کو کام دیتا ہوں تاکہ وہ بھيک مانگنے سے بچ سکیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بچوں کو کام دینے پر پابندی ہے۔ لیکن اس طرح سے میں ان کے اہلِ خانہ کی مدد کر رہا ہوں جو کے شاید اس مشکل صورتحال سے باہر نہیں نکل سکيں۔‘
تصویر: DW/J. Hahn
’امید کرتا ہوں کہ میں گھر واپس جا سکوں‘
مُوسیٰ کی عمر بھی 13 سال ہے۔ سلائی کے اس ورکشاپ میں زیادہ تر بچے شام کے شمالی صوبہ ’عفرین‘ کی کُرد آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کام کے علاوہ موسیٰ کی کیا مصروفیات ہیں؟ وہ بتاتا ہے، ’’میں فٹ بال کھیلتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ شام میں دوبارہ امن بحال ہوجائے تاکہ ہم گھر واپس جا سکیں۔‘‘ موسیٰ شام واپس جا کر تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
سستی ملازمت
اس ورکشاپ میں روزانہ خواتین کے لیے ہزاروں انڈر گارمنٹس مختلف رنگ اور ناپ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ ان ملبوسات کی قیمت صرف چند ترکش لیرا ہے۔ ترکی میں بچوں سے مزدوری کرانے کا مقصد چین کے مقابلے میں سستی لیبر کی تياری ہے۔ ترکی میں بچوں کو فی گھنٹہ 50 یورو۔سینٹ سے بھی کم اجرت ادا کی جاتے ہے جبکہ بچوں کے مقابلے میں بالغ مزدور دگنا کماتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ایک دن میں بارہ گھنٹے کام
آرس گیارہ سال کی بچی ہے اور گزشتہ چار ماہ سے کام کر رہی ہے۔ آرس کی والدہ فی الوقت حاملہ ہیں اور اس کے والد بھی ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ آرس کے دن کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوتا ہے۔ آرس کی ڈیوٹی شب آٹھ بجے ختم ہوتی ہے۔ اس کو دن میں دو مرتبہ کام سے وقفہ لینے کی اجازت ہے۔ تنخواہ کی صورت میں آرس کو 700 ترکش لیرا ماہانہ ملتے ہیں جو تقریبا 153 یورو بنتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
تعلیم: عیش و عشرت کے مانند ہے
چونکہ آرس پیر سے جمعہ تک کام میں مصروف ہوتی ہے اس لیے وہ سرکاری اسکول نہیں جا سکتی۔ تاہم آرس ہفتے کے آخر میں ایک شامی سماجی ادارے کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے۔ نصاب میں ریاضی، عربی اور ترکش زبان سکھائی جاتی ہے۔ اس سکول کے زیادہ تر اساتذہ کو بھی جنگ کی وجہ سے اپنا ملک ’شام‘ چھوڑنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/J. Hahn
کلاس روم سے دوری
چار سے اٹھارہ سال کی عمر کے درمیان کے 70 سے زائد بچے اس چھوٹے سے شامی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بعض اوقات خواتین اساتذہ بچوں کے والدین کو قائل کرنے کے لیے ان کے گھر بھی جاتی ہیں۔ یہ اساتذہ والدین سے اپنے بچوں کو کم از کم ایک دن اسکول بھیجنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاکہ بچوں کو اپنا مستقبل سوارنے کا موقع مل سکے۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں شامی اور روسی لڑاکا طیارے نے گزشتہ شب سے اب تک 30 فضائی حملے کیے ہیں جب کہ جنگی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بھی اس علاقے میں 25 بیرل بم گرائے گئے ہیں۔
دس روز تک قدرے امن کے بعد گزشتہ روز شامی فورسز نے دوما کے قصبے پر درجنوں فضائی حملے کیے تھے۔ اس علاقے پر باغیوں کے ایک مضبوط گروپ جیش الاسلام کا قبضہ ہے، تاہم مشرقی غوطہ کا پورا علاقہ ایک طویل مدت سے سرکاری فورسز کے محاصرے میں ہے۔
جمعے کے روز ہونے والی بمباری میں آٹھ بچوں سمیت کم از کم 40 عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، ادھر شام کی زمینی فورسز بھی رفتہ رفتہ اس قصبے پر اپنی گرفت مضبوط کرتی جا رہی ہیں۔
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
13 تصاویر1 | 13
جمعرات کو دوما سے عام شہریوں کے انخلا تک آپریشن معطل کیا گیا تھا، جب کہ اس سے قبل اس علاقے سے سینکڑوں اپوزیشن جنگجو اپنے اہل خانہ کے ہم راہ نکل گئے تھے۔ اس سلسلے میں روس کی ثالثی میں ڈیل طے پائی تھی۔
حالیہ کچھ ہفتوں میں حکومتی فورسز مشرقی غوطہ کا ایک بڑا حصہ اپنے قبضے میں لے چکی ہیں، جس کی ایک وجہ روس کی ثالثی میں جنگجوؤں کا علاقے سے پرامن اور محفوظ انخلا ہے جب کہ دوسری وجہ شام کی زمینی فورسز کی مسلسل پیش قدمی ہے۔
واضح رہے کہ مشرقی غوطہ ایک طویل عرصے سے باغیوں کے قبضے میں ہے مگر گزشتہ چار برسوں سے بشاالاسد کی حامی فورسز نے مشرقی غوطہ کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر مشرقی غوطہ کا تمام علاقہ سرکاری فورسز کے قبضے میں آ گیا، تو یہ دسمبر 2016ء میں حلب میں باغیوں کی پسپائی کے بعد ان کے لیے دوسرا سب سے بڑا دھچکا ہو گا۔