مشرقی غوطہ میں امدادی سامان کی ترسیل، جنگی کارروائی جاری
5 مارچ 2018
مشرقی غوطہ میں شروع ہونے والی فوجی کارروائی کے بعد پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے امدادی سامان کی کھیپ اس شورش زدہ علاقے میں پہنچ گئی ہے۔ تاہم شامی فورسز باغیوں کے زیر قبضہ اس علاقے میں اپنی عسکری کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ امدادی سامان سے لدے 46 ٹرک مشرقی غوطہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان ٹرکوں میں بنیادی امدادی سامان ہے، جو اس علاقے میں محصور لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ امدادی ٹرک سب سے زیادہ متاثرہ شہر دوما لے جائے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ حکومتی فورسز نے مشرقی غوطہ میں باغیوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔ اس سے پہلے ہی اس علاقے کا محاصرہ کر لیا گیا تھا، جس کے باعث وہاں لوگ محصور ہو گئے۔ باغیوں کے زیر قبضہ اس علاقے میں شامی فورسز کی کارروائی کی وجہ سے متعدد افراد ہلاک تو ہوئے ہی ہیں لیکن ساتھ ہی ہزاروں افراد بنیادی خوارک اور طبی امداد سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
مشرقی غوطہ کی لڑائی کو شام کی سات سالہ خانہ جنگی کی بدترین جنگی مہم قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتوں نے دمشق اور ماسکو حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ اس عسکری کارروائی کو روکا جائے تاہم شامی صدر بشار الاسد کا کہنا ہے کہ ‘دہشت گردوں‘ کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ یاد رہے کہ بشار الاسد کی حکومت حکومت مخالف تمام فورسز کو ہی دہشت گرد قرار دیتی ہے۔
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
13 تصاویر1 | 13
ایک ماہ سے جاری اس شدید لڑائی کے نتیجے میں کم ازکم سات سو شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق مشرقی غوطہ میں بمباری کی وجہ سے بے شمار رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق اتوار کی رات شامی فورسز کی طرف سے کی گئی تازہ بمباری کی وجہ سے مزید دس افراد مارے گئے ہیں۔
آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے بتایا ہے کہ شامی فورسز نے اپنی کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے اور پیر کی صبح تک مشرقی غوطہ کا ایک تہائی حصہ بازیاب کرا لیا گیا ہے، ’’شامی فورسز تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔‘‘ مشرقی غوطہ میں تقریبا چار لاکھ نفوس آباد ہیں، جو بنیادی ضروریات اشیاء سے محروم ہو چکے ہیں۔ توقع ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے فراہم کردہ امدادی سامان سے ان شہریوں کی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہو سکے گی۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے مشترکہ طور پر کہا ہے کہ مشرقی غوطہ میں ’دل دہلا دینے والا انسانی المیے‘ کے ذمہ دار شام اور روس ہیں۔ دوسری طرف شام اور اس کے اتحادی ملک روس کا کہنا ہے کہ مشرقی غوطہ میں باغی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔