شامی فورسز مشرقی غوطہ میں اپنی پیش قدمی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ بیس روز سے جاری اس لڑائی کے نتیجے میں ایک ہزار کے قریب شہری ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے گیارہ مارچ بروز اتوار بتایا ہے کہ شامی فوج مشرقی غوطہ میں پیش قدمی کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ روز ہی شامی دستوں نے باغیوں کے زیر قبضہ اس علاقے میں واقع دوما نامی اہم شہر میں بڑی کامیابی حاصل کی۔
روسی فوج اور حامی ملیشیا گروہوں کی مدد سے شامی فوج نے اس شہر کو عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک حصے میں ملکی فوج کی عمل داری قائم ہو گئی ہے جبکہ دوسرے حصے میں باغی ابھی تک مزاحمت ظاہر کر رہے ہیں۔
شامی فوج نے مشرقی غوطہ کی بازیابی کا آپریشن اٹھارہ فروری کو شروع کیا تھا۔ تب سے اب تک اس خونریز لڑائی کے نتیجے میں کم ازکم ایک ہزار شہری مارے جا چکے ہیں۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ اس عسکری مہم کے دوران سینکڑوں شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔ شامی فوج نے چار لاکھ کے قریب آبادی پر مشتمل اس علاقے کا محاصرہ سن 2013 سے کر رکھا ہے۔
عالمی مطالبوں کے باوجود شامی فورسز مشرقی غوطہ میں باغیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دمشق کے اس نواحی علاقے کو شام میں باغیوں کا آخری اہم گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔ اس مقام پر باغیوں کی پسپائی کو شامی فوج کی اہم کامیابی جبکہ باغیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
مشرقی غوطہ میں فعال باغی دمشق پر مسلسل راکٹ حملے کرتے رہتے تھے۔ تاہم اب توقع کی جا رہی ہے کہ اس تازہ کارروائی کے نتیجے میں باغیوں کا زور ٹوٹ جائے گا۔
دوسری طرف مشرقی غوطہ میں محصور شہری انسانی المیے کا شکار ہوتے جا رہیں ہیں۔ بین الاقوامی خیراتی ادارے ریڈ کراس، اقوام متحدہ اور سیئرین عرب ریڈ کریسنٹ کی ٹیمیں اس شورش زدہ علاقے میں خوراک اور طبی امداد کی فراہمی کی کوششوں میں ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے شامی نمائندے نے خبردار کیا ہے کہ ’یہ علاقہ ایک بڑی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے‘۔ مشرقی غوطہ کا دورہ کرنے کے بعد سجاد ملک نے وہاں کے رہائشیوں کی تصویر کشی کرتے ہوئےکہا، ’’میں نے زندگی بھر ميں ایسے خوفزدہ چہرے نہیں دیکھے‘‘۔
ع ب / اے ایف پی
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔