شامی فوج مشرقی غوطہ ميں باغيوں کے زير کنٹرول آخری علاقے دوما کی بازيابی کے ليے اپنا آپريشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ دريں اثناء دوما سے شہريوں کو نکالنے کے ليے روس اور باغيوں کے مابين ایک جزوی سمجھوتہ طے پا گيا ہے۔
اشتہار
شامی فوج نے دعویٰ کيا ہے کہ مشرقی غوطہ کے خطے میں اکثر قصبوں اور ديہات پر قبضہ کر ليا گيا ہے اور باغيوں کے زير کنٹرول آخری علاقے دوما کی بازيابی کے ليے بھی کارروائی جاری ہے۔ فوج کے ایک ترجمان نے سرکاری ٹيلی وژن پر ہفتے کی رات کہا کہ کئی ہفتوں سے جاری اس عسکری کارروائی ميں واضح پيش رفت کے سبب ملکی دارالحکومت دمشق اب محفوظ ہو گیا ہے۔
2013ء سے محاصرہ شدہ مشرقی غوطہ کی بازيابی کے ليے شامی دستوں کی روسی فضائیہ کی حمايت سے کی جانےو الی عسکری کارروائی کے دوران اب تک قريب سولہ سو عام شہری ہلاک اور ہزاروں ديگر زخمی ہو چکے ہيں۔ شديد لڑائی کے سبب وہاں سے تقريباً ڈيڑھ لاکھ افراد نقل مکانی بھی کر چکے ہيں۔
دوما مشرقی غوطہ کا وہ واحد علاقہ ہے، جہاں اب بھی باغیوں کا کنٹرول ہے جبکہ ديگر تمام علاقوں پر صدر بشار الاسد کی حامی افواج قابض ہو چکی ہيں۔ تازہ پيش رفت ميں دوما سے شہريوں کو بحفاظت نکالنے کے ليے روس اور وہاں سرگرم باغيوں کے مابين ایک جزوی معاہدہ بھی طے پا گيا ہے۔ يہ بات شامی اپوزیشن تنظیم سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے ذرائع نے اتوار يکم اپريل کو بتائی۔ اس تنظیم کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے بتايا کہ شمالی شام ميں ادلب جانے کے خواہش مند سينکڑوں محصورین کو دوما سے نکالنے کے ليے ایک جزوی سمجھوتہ طے پا گیا ہے جب کہ ایک جامع سمجھوتے کے ليے فريقين کے مابين مذاکرات جاری ہیں۔
شامی فوجی کی اعلیٰ قیادت کے مطابق مشرقی غوطہ کے اس علاقے ميں عسکری کارروائياں تاحال جاری ہيں، جہاں باغیوں کی تنظیم جيش الاسلام سرگرم ہے۔ دمشق حکومت کا ايک عرصے سے يہ موقف رہا ہے کہ مشرقی غوطہ کو شامی باغيوں سے آزاد کرا لینے کے نتيجے ميں دمشق پر راکٹ حملے روکے جا سکیں گے۔
دوسری جانب دوما ميں صدر بشار الاسد کے فوجی دستوں کا ممکنہ مکمل کنٹرول ملک میں حکومت مخالف باغيوں کے ليے سن 2016 کے بعد سے ان کی سب سے بڑی شکست ثابت ہو گا۔ يہ ممکنہ پيش رفت علامتی طور پر بھی کافی اہميت کی حامل ثابت ہو سکتی ہے کيونکہ شام ميں صدر بشار الاسد کے خلاف مارچ سن 2011 ميں شروع ہونے والی تحريک ميں دمشق کے يہی نواحی علاقے مظاہروں اور عوامی احتجاج کا بڑا مرکز تھے۔
دفاعی تجزيہ نگاروں کے مطابق شامی فوج کی مشرقی غوطہ ميں عسکری مہم کا ايک اہم مقصد دارالحکومت کے قريب سکيورٹی مضبوط بنانا تھا۔ حکومت مخالف باغی ايک عرصے سے دمشق کے مضافاتی علاقوں ميں بارودی سرنگيں بچھاتے، اپنی عسکری پوزيشنيں مضبوط بناتے اور حملے کرتے آئے تھے۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔