شام کے علاقے مشرقی غوطہ کے شہریوں کی جانب سے اس محصور شدہ علاقے کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی روسی پیشکش پر مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ماسکو اور باغی انسانی بحران کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔
اشتہار
مشرقی غوطہ کے علاقے میں کی جانے والی اس فضائی بمباری میں اب نسبتاﹰ کمی واقع ہو چکی ہے جس کے سبب محض 10 دن کے دوران 600 عام شہری ہلاک ہوئے۔ یہ کمی روس کی جانب سے اس اعلان کے بعد سے دیکھی گئی ہے جس کے مطابق روزانہ پانچ گھنٹے جنگ بندی پر عمل کیا جائے گا۔ تاہم شامی حکومت کی طرف سے اس محصور شدہ علاقے کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی پیشکش پر کوئی ایک بھی شہری اس علاقے سے نکلنے پر تیار نہیں ہوا۔ شامی حکومت کی طرف سے اس مقصد کے لیے بدھ کے روز سے بسیں بھی فراہم کر دی گئیں۔ تاہم شدید بمباری کے شکار چار لاکھ کی آبادی والے اس علاقے کے شہریوں نے اس سہولت کو استعمال نہیں کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس کے رپورٹرز نے وافدین کی اُس چیک پوائنٹ پر کوئی بھی ہلچل نہیں دیکھی، جو مشرقی غوطہ کے علاقے میں پھنسے افراد کو وہاں سے نکلنے کے لیے بطور محفوظ راستہ فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی غوطہ کا علاقہ 2012ء سے باغیوں کے کنٹرول میں ہے۔ اس چیک پوائنٹ پر موجود ایک فوجی افسر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ ہیومینیٹیرین کوریڈور ان تمام افراد کے لیے کھُلا ہے جو مادر وطن کو لوٹنا چاہتے ہیں مگر یہ دوسرا دن اور کوئی بھی شخص نہیں آیا۔‘‘
دوسری طرف امریکا نے دمشق حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ بدھ 28 فروری کی شام اس کی فورسز نے مشرقی غوطہ میں کارروائی کی۔ تاہم روس نے کہا ہے کہ شامی باغی پرتشدد کارروائیوں سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ باغیوں کے زیر قبضہ دمشق کے اس نواحی علاقے میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد محصور ہے، جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتوں کی کوششوں کے باوجود شام میں قیام امن کے لیے ایک عارضی سمجھوتے پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔