مشرقی غوطہ گولہ باری و بمباری کی زد میں،ایک سو سے زائد ہلاک
عابد حسین
20 فروری 2018
دمشق کے نواح میں واقع مشرقی غوطہ میں حکومتی دستوں کے حملوں میں ایک سو سے زائد عام شہریوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ اس محصور زدہ علاقے پر اب بھی شامی باغی قابض ہیں۔
اشتہار
شام کے حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والے اپوزیشن کے مبصر گروپ سیریئن آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے اپنے ذرائع سے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان میں متعدد بچے بھی شامل ہیں۔ بھاری اسلحے سے کیے جانے والے اس حملے میں کئی سو افرد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
یہ شہر شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع ہے۔ شامی باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی غوطہ کا قبضہ چھڑانے کے لیے شامی فوج مسلسل حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
آبزرویٹری نے بتایا ہے کہ شامی فوج کے حملے پیر اور منگل کی درمیانی رات میں بھی جاری رہے۔ صدر بشار الاسد کی حامی فوج نے مشرقی غوطہ پر بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری اور راکٹوں کے داغنے کا سلسلہ وقفے وقفے سے شروع کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ شامی جنگی طیارے بھی محصور زدہ علاقے کے باغیوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ مشرقی غوطہ پر شامی فوج کے حملے حقیقت میں اُس کے کئی علاقوں پر باغیوں کے خلاف جاری وسیع آپریشن کا حصہ ہیں۔ شام کی فوج کو روسی جنگی طیاروں کے ساتھ ساتھ جدید روسی اسلحے کی فراہمی نے نئی ہمت بخش رکھی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ مسلسل کئی محاذوں پر فتح مند بھی ہو چکی ہے۔ شامی فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرقی غوطہ میں دوسرے باغیوں کی آڑ میں جہادی اپنی سرگرمیاں جناری رکھے ہوئے ہیں۔
مشرقی غوطہ صدر اسد کے مخالفین کے قبضے میں ہے اور دمشق حکومت نے گزشتہ چار برسوں سے زائد عرصے سے اس علاقے کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ اس طرح تقریباً چار لاکھ شہری بیرونی دنیا کٹ کر رہ گئے ہیں اور انسانی ضروریات کی اشیاء سے بھی محروم ہیں۔
آبزرویٹری کی اس رپورٹ کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔