مشرقی یروشلم میں یہودی آبادکاروں کی بستی میں نئی توسیع منظور
مقبول ملک اے ایف پی
25 اکتوبر 2017
اسرائیلی حکام نے مشرقی یروشلم کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آبادکاروں کی ایک بڑی بستی میں ایک توسیعی منصوبے کے تحت مزید پونے دو سو سے زائد نئے گھروں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ اس یہودی بستی کا نام ’نوف صیہون‘ ہے۔
اشتہار
یروشلم سے بدھ پچیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق شہر کے عرب مشرقی حصے میں یہودی آبادکاروں کے لیے نئے رہائشی مکانات کی تعمیر کے اس منصوبے کی شہر کے ڈپٹی میئر نے بھی تصدیق کر دی ہے۔
اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کے منصوبوں کی مخالفت کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق اب تک نوف صیہون (Nof Zion) نامی اس یہودی بستی میں اسرائیلی آبادکاروں کے گھروں کی تعداد صرف 91 ہے، جس میں اب 176 کے اضافے کی حتمی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس بارے میں حکام نے تعمیراتی اجازت نامے پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔
ان غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ نئی منظور شدہ توسیع کے بعد یہ یہودی بستی یروشلم شہر کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں سب سے بڑی اسرائیلی بستی بن جائے گی۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ یہ یہودی بستی اسرائیل کی طرف سے اپنے ریاستی علاقے میں زبردستی شامل کر لیے جانے والے یروشلم شہر کے مشرقی حصے میں اس جگہ پر قائم ہے، جو اکثریتی طور پر فلسطینی آبادی والا علاقہ ہے اور جبل المکبر کہلاتا ہے۔
شہر کے ڈپٹی میئر مائر تُرجےمین نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس یہودی بستی میں توسیع کی یروشلم کی منصوبہ بندی کمیٹی نے منظوری دے دی ہے۔ اسرائیل کی ایک اہم غیر سرکاری تنظیم ’پِیس ناؤ‘ (Peace Now) نے کہا ہے کہ مجوزہ توسیع کے بعد نوف صیہون نہ صرف مشرقی یروشلم بلکہ مقبوضہ مغربی اردن کے کنارے میں بھی کسی بھی فلسطینی رہائشی علاقے میں قائم سب سے بڑی یہودی بستی بن جائے گی۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
مغربی اردن کے علاقے میں اکثر یہودی بستیاں فلسطینی رہائشی علاقوں سے باہر قائم ہیں اور وہ بالعموم وہاں مقیم یہودی آبادکاروں کی تعداد کے حوالے سے نوف صیہون سے بڑی ہیں۔
یروشلم شہر کی حیثیت ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور اس کا شمار فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں مرکزی اہمیت کے حامل موضوعات میں ہوتا ہے۔
اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا اور بعد ازاں اسے اپنے ریاستی علاقے میں شامل کرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔
اسرائیل کے اس یک طرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری آج تک مشرقی یروشلم کو مقبوضہ فلسطینی علاقہ ہی سمجھتی ہے، جسے اسرائیل کو خالی کرنا ہو گا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ یروشلم کا پورا شہر اس کا ’ناقابل تقسیم دارالحکومت‘ ہے جب کہ فلسطینیوں کا اصرار ہے کہ مستقبل میں ان کی آزاد اور خود مختار ریاست کا دارالحکومت یروشلم کا یہی عرب مشرقی حصہ ہو گا۔