مشرق وسطٰی میں اثر و رسوخ کے لیے ایران اور سعودی عرب میں رسہ کشی
6 مارچ 2012عرب دنیا میں تبدیلیوں کی حالیہ لہر کئی لحاظ سے خلیجی ریاستوں کے لیے سود مند ثابت ہوئی ہے اور انہیں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کا موقع ملا ہے۔
کویت سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر سمیع الفراج کا کہنا ہے، ’مشرق وسطٰی میں آپ جہاں بھی نگاہ دوڑائیں آپ کو منظر نامے میں ایران کسی نہ کسی صورت میں دکھائی دے گا۔ اور ایران کی موجودگی کا مطلب ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اس کی رقابت کا عنصر بھی ہو گا‘۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سعودی عرب ہمسایہ ملک بحرین میں سنی شاہی نظام کے خاتمے کو بچانے کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ خلیجی رہنماؤں کے خیال میں بحرین میں شیعہ مسلمانوں کی زیر قیادت بغاوت کو ایران شہ دے رہا ہے۔
خلیجی عرب ریاستوں نے فلسطینی گروپ حماس کو بھی ایران کے دائرہ اثر سے باہر نکالنے کے لیے اسے امداد اور ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
تاہم شام کی علوی شیعہ حکومت کا اگر خاتمہ ہوتا ہے تو اسے ایک بڑی کامیابی تصور کیا جا سکتا ہے۔ صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے ایران کے شام کے ساتھ گہرے تعلقات کمزور ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں ایران سے عراق اور وہاں سے شام تک بننے والی مبینہ شیعہ قوس کی بجائے سعودی عرب سے اردن اور پھر شام تک سنی اتحادیوں کی ایک نئی راہداری وجود میں آ سکتی ہے۔
اس سے لبنان میں تہران کے اہم حلیف شیعہ حزب اللہ کو پہنچنے والی امداد بھی رک سکتی ہے جس کے نتیجے میں اسے زیادہ اعتدال پسند سیاسی قوتوں کے ساتھ تعاون پر مجبور ہونا پڑے گا۔
اے پی کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے اتوار کو ریاض میں خلیجی عرب وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس کے بعد ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی نیوز کانفرنس میں کہا، ’حکومت شامی عوام پر زبردستی مسلط رہنے پر مصر ہے۔ عوام یہ حکومت نہیں چاہتے۔‘
سعودی عرب اور انتہائی متحرک خلیجی ریاست قطر کی جانب سے شام کے باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی سے اس مقصد کی جانب مزید پیشرفت ہو گی۔ قطر اور متحدہ عرب امارات نے لیبیا میں سابق رہنما معمر قذافی کی فورسز پر نیٹو کے فضائی حملوں میں مدد کی تھی۔
ایران کی خلیج میں بڑھتی ہوئی عسکری موجودگی کی کوشش کے واضح جواب میں چھ ملکی خلیجی تعاون کونسل میں اپنی دفاعی اور خارجہ پالیسیوں کو ضم کرنے پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے شاہی نظام پر مبنی مراکش اور اردن کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔
امریکا کا پانچوں بحری بیڑا بحرین میں موجود ہے اور ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کسی ممکنہ فوجی کارروائی کی صورت میں سینکڑوں امریکی جنگی جہازوں کا بھی اس میں ایک اہم کردار ہو سکتا ہے۔
ایران نے اپنے شامی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے وہاں کی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مذاکرات پر زور دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے شام میں کسی بھی ایسی مداخلت کی مذمت کی تھی جس سے موجودہ نظام کو نقصان پہنچے۔ دفاعی اور انٹیلی جنس گروپ جینز میں مشرق وسطٰی کے ایک سینئر تجزیہ کار ڈیوڈ ہارٹ ویل کے بقول یوں دکھائی دیتا ہے کہ متذبذب مغربی شراکت داروں کے برعکس سعودی عرب اور قطر شام کی حزب اختلاف کو ہتھیار فراہم کر سکتے ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: افسر اعوان