1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطٰی میں اثر و رسوخ کے لیے ایران اور سعودی عرب میں رسہ کشی

6 مارچ 2012

سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کی جانب سے شام کے صدر بشار الاسد پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کا ایک مقصد شام کے حلیف ایران کے مشرق وسطٰی میں اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کی کوشش بھی ہے۔

عرب دنیا میں تبدیلیوں کی حالیہ لہر کئی لحاظ سے خلیجی ریاستوں کے لیے سود مند ثابت ہوئی ہے اور انہیں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کا موقع ملا ہے۔

کویت سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر سمیع الفراج کا کہنا ہے، ’مشرق وسطٰی میں آپ جہاں بھی نگاہ دوڑائیں آپ کو منظر نامے میں ایران کسی نہ کسی صورت میں دکھائی دے گا۔ اور ایران کی موجودگی کا مطلب ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اس کی رقابت کا عنصر بھی ہو گا‘۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سعودی عرب ہمسایہ ملک بحرین میں سنی شاہی نظام کے خاتمے کو بچانے کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ خلیجی رہنماؤں کے خیال میں بحرین میں شیعہ مسلمانوں کی زیر قیادت بغاوت کو ایران شہ دے رہا ہے۔

خلیجی عرب ریاستوں نے فلسطینی گروپ حماس کو بھی ایران کے دائرہ اثر سے باہر نکالنے کے لیے اسے امداد اور ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان مشرق وسطٰی میں اثر و رسوخ کی کشمکش جاری ہےتصویر: DW Montage

تاہم شام کی علوی شیعہ حکومت کا اگر خاتمہ ہوتا ہے تو اسے ایک بڑی کامیابی تصور کیا جا سکتا ہے۔ صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے ایران کے شام کے ساتھ گہرے تعلقات کمزور ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں ایران سے عراق اور وہاں سے شام تک بننے والی مبینہ شیعہ قوس کی بجائے سعودی عرب سے اردن اور پھر شام تک سنی اتحادیوں کی ایک نئی راہداری وجود میں آ سکتی ہے۔

اس سے لبنان میں تہران کے اہم حلیف شیعہ حزب اللہ کو پہنچنے والی امداد بھی رک سکتی ہے جس کے نتیجے میں اسے زیادہ اعتدال پسند سیاسی قوتوں کے ساتھ تعاون پر مجبور ہونا پڑے گا۔

اے پی کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے اتوار کو ریاض میں خلیجی عرب وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس کے بعد ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی نیوز کانفرنس میں کہا، ’حکومت شامی عوام پر زبردستی مسلط رہنے پر مصر ہے۔ عوام یہ حکومت نہیں چاہتے۔‘

سعودی عرب اور انتہائی متحرک خلیجی ریاست قطر کی جانب سے شام کے باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی سے اس مقصد کی جانب مزید پیشرفت ہو گی۔ قطر اور متحدہ عرب امارات نے لیبیا میں سابق رہنما معمر قذافی کی فورسز پر نیٹو کے فضائی حملوں میں مدد کی تھی۔

صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے ایران کے شام کے ساتھ گہرے تعلقات کمزور ہو جائیں گےتصویر: APTN/AP/dapd

ایران کی خلیج میں بڑھتی ہوئی عسکری موجودگی کی کوشش کے واضح جواب میں چھ ملکی خلیجی تعاون کونسل میں اپنی دفاعی اور خارجہ پالیسیوں کو ضم کرنے پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے شاہی نظام پر مبنی مراکش اور اردن کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔

امریکا کا پانچوں بحری بیڑا بحرین میں موجود ہے اور ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کسی ممکنہ فوجی کارروائی کی صورت میں سینکڑوں امریکی جنگی جہازوں کا بھی اس میں ایک اہم کردار ہو سکتا ہے۔

ایران نے اپنے شامی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے وہاں کی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مذ‌اکرات پر زور دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے شام میں کسی بھی ایسی مداخلت کی مذمت کی تھی جس سے موجودہ نظام کو نقصان پہنچے۔ دفاعی اور انٹیلی جنس گروپ جینز میں مشرق وسطٰی کے ایک سینئر تجزیہ کار ڈیوڈ ہارٹ ویل کے بقول یوں دکھائی دیتا ہے کہ متذبذب مغربی شراکت داروں کے برعکس سعودی عرب اور قطر شام کی حزب اختلاف کو ہتھیار فراہم کر سکتے ہیں۔

رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں