مشرق وسطیٰ امن عمل کی رفتار پر عالمی تشویش
12 جولائی 2011واشنگٹن میں پیر کو عشائیے پر ملاقات کرنے والے اس گروپ کے نمائندوں میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری جنرل بان کی مون، یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور کیتھرین ایشٹن، امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لافروف شامل تھے۔ تاہم انہوں نے اس ملاقات کے بعد کسی طرح کا بیان جاری کرنے سے انکار کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل اس گروپ کی یہ آخری ملاقات ہو سکتی ہے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر فلسطینی امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت کے باوجود اپنی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کیے جانے کے لیے دباؤ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
باراک اوباما کی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے گفتگو میں کہا:’’ہم (امن عمل میں پائے جانے والے) خلاء کو حقیقت پسندی سے دیکھ سے رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ مزید کوششیں کیے جانے کی ضرورت ہے۔ پھر بھی سخت فیصلے کرنے کا انحصار فریقین پر ہی ہو گا۔ ہم اس عمل کو آسان بنانے اور ان کی مدد کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔‘‘
اسی عہدے دار کا یہ بھی کہنا ہے کہ چار فریقی سفارتی گروپ کے ارکان نے اوباما کے اس مؤقف کی حمایت کی ہے، جس کا اظہار انہوں نے مئی میں کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے فریقین پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے ممالک کی سرحدوں کا تعین 1967ء کی حد بندی کے مطابق کریں۔
جنوری 2009ء میں صدارت کا منصب سنبھالتے ہی باراک اوباما نے یہ واضح کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امن اور فلسطینی ریاست کو یقینی بنانا ان کی اوّلین سفارتی ترجیحات میں شامل ہو گا۔
اوباما انتظامیہ کے اس اعلیٰ اہلکار کا مزید کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان فوری طور پر براہ راست مذاکرات شروع کیے جانے کی ضرورت ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات گزشتہ برس ستمبر میں آبادکاری کے تنازعے پر رک گئے تھے۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک بات چیت شروع نہیں کریں گے، جب تک اسرائیل تعمیراتی عمل روک نہیں دیتا۔
رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی