مشرق وسطیٰ میں قتل عام بند کیا جائے، پوپ فرانسس کا مطالبہ
1 اپریل 2018
ایسٹر کے تہوار کے موقع پر کیتھولک مسیحیوں کے پیشوا پوپ فرانسس نے مطالبہ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قتل عام بند کیا جائے اور غزہ میں مزید ہلاکتیں روکتے ہوئے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مصالحت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
اشتہار
آج اتوار یکم اپریل کو دنیا بھر کے کرسچین ایسٹر سنڈے منا رہے ہیں، جو مسیحی دنیا کا مقدس ترین مذہبی تہوار سمجھا جاتا ہے کیونکہ مسیحی عقیدے کے مطابق اس روز یسوع مسیح دوبارہ زندہ ہو گئے تھے۔ اس موقع پر ویٹیکن سٹی میں سینٹ پیٹرز اسکوائر کے مقام سے وہاں جمع ہزارہا اور مجموعی طور پر دنیا بھر کے قریب 1.3 بلین کیتھولک مسیحیوں سے اپنے روایتی خطاب ’شہر اور دنیا کے نام‘ کے دوران پاپائے روم نے کہا کہ آج کی دنیا میں جگہ جگہ ظلم، ناانصافی اور قتل و غارت نظر آتے ہیں، جن کے خلاف تمام انسانوں کو اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔
پاپائے روم نے اپنے اس خطاب میں کہا، ’’شام میں، جہاں کئی برسوں سے جنگ جاری ہے، قتل عام ابھی بند نہیں ہوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تباہ حال شامی باشندوں کی انسانی بنیادوں پر مدد کی جائے، ان تک امدادی سامان کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے اور ایسے سازگار حالات پیدا کیے جائیں، جن کے نتیجے میں کئی ملین شامی مہاجرین واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔‘‘
پوپ فرانسس نے کہا، ’’ہم دعا کرتے ہیں کہ پوری دنیا امن کے ثمرات سے مستفید ہو۔ اس میں ہمارے وہ شامی بہن بھائی بھی شامل ہیں، جنہیں مصائب، تباہی اور خونریزی کا سامنا کرتے ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ اپنے اس خطاب میں پوپ فرانسس نے مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ میں غزہ پٹی اور اسرائیل کے درمیان سرحد پر حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران کم از کم سولہ فلسطینیوں کی ہلاکت کا باعث بننے والے حالات انتہائی افسوسناک ہیں اور آج اس امر کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مصالحت اور قیام امن کو فروغ دیا جائے۔
81 سالہ پوپ نے ایسٹر کے موقع پر اپنے اس پیغام میں خاص طور پر ’ارض مقدس‘ کے کونے کونے تک امن اور مصالحت کے ثمرات کے پہنچ جانے کی دعا بھی مانگی۔ مسیحی عقیدے کے مطابق جس سرزمین کو ’ارض مقدس‘ کہا جاتا ہے، وہ کافی حد تک موجودہ اسرائیلی ریاست، جنوبی لبنان، مغربی اردن اور خود مختار فلسطینی علاقوں پر محیط سمجھی جاتی ہے۔
آج ایسٹر سنڈے کے روز ویٹیکن سٹی میں پوپ کے اس خطاب کے موقع پر سینٹ پیٹرز اسکوائر کو حسب روایت ان قریب 50 ہزار پھولوں اور پودوں سے سجایا گیا تھا، جو ہر سال اس مقصد کے لیے ہالینڈ کی طرف سے تحفے میں بھیجے جاتے ہیں۔ پوپ کے اس خطاب کو براہ راست سننے کے لیے سینٹ پیٹرز اسکوائر میں قریب 80 ہزار مسیحی عقیدت مند موجود تھے۔
کرسمس کےدن پیش آنے والے چند تاریخی واقعات
دنیا بھر میں موجود مسیحیت کے ماننے والے کرسمس کے موقع پر حضرت عیسیٰ کی ولادت کی خوشی نہایت عقیدت سے مناتے ہیں۔ تاہم صدیوں سے کرسمس پر پیش آنے والے چند مزید واقعات ایسے بھی اس دن سے منسوب ہیں جو یادگار ہیں۔
تصویر: Domkapitel Aachen/Andreas Herrmann
سورج کا خدا ، ناقابل تسخیر سورج
یسوع مسیح کی تاریخ پیدائش 25 دسمبر ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ لیکن ان کی پیدائش کا جشن منانے کے لیے اس تاریخ کا چناؤ غالبا اس لیے کیا گیا کیونکہ اس دن پہلے سے ہی تمام بڑے مذاہب سردیوں میں سورج کی خط استوا سے دوری پر جشن مناتے تھے۔ ان میں سے ایک وہ مذہب تھا جس کی بنیاد رومن بادشاہ کی جانب سے25 دسمبر 274 ہجری کو Sol Invictus یا ناقابل تسخیر سورج خدا کے نام سے ڈالی گئی تھی۔
تصویر: imago/Leemage
شارلہمین کی تاج پوشی
مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والے نہایت طاقتور بادشاہ، شارلہمین ، جس نے سلطانی کا تاج اپنے سر پر سجانے سے قبل ہی یورپ کو اپنے جھنڈے تلے یکجا کر رکھا تھا، اسے 25 دسمبر کو یونانیوں کا شہنشاہ منتخب کیا گیا تھا۔ شارلہمین کے دور کو خوشحالی اور مسیحیت کے فروغ کے سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/P.Böll
درجہ حرارت ماپنے کے لیے سیلسئیس کا استعمال
سویڈن سے تعلق رکھنے والے ماہر فلکیات انڈریس سیلسئیس نے پہلی بار سنٹی گریڈ تھرما میٹر کا پیمانہ ، سیلسئیس اسکیل سن سترہ سو بیالیس میں متعارف کروایا۔ تاہم بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اسے سب سے پہلے 25 دسمبر 1741 میں استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/MP/Leemage
سفید فام شدت پسند تنظیم کا قیام
سن اٹھارہ سو پینسٹھ میں جنوبی اتحاد کی شکست کےساتھ ہی امریکہ میں جاری خانہ جنگی اختتام پذیر ہوئی۔ اسی برس 24 دسمبر کو جنوبی اتحاد کے کچھ سپاہیوں نے آپس میں ایک ملاقات کی اور Ku Klux Klan نامی ایک خفیہ سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔یہ تنظیم سفید فاموں کی برتری کے لیے تشدد کا سہارا لینے پر یقین رکھتی ہے۔
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/J. Bazemore
دوران جنگ عارضی صلح
پہلی جنگ عظیم کے دوران جہاں ہر طرف موت اور تباہی رقصاں تھی وہیں کچھ ایسے لمحات بھی تھے جو امن اور امید کی شمع روشن کر رہے تھے۔ ایسا ہی ایک لمحہ 1914 میں کرسمس سے ایک دن قبل کا تھا، جب شمالی فرانس کی سرحدوں پر برطانوی اور جرمن فوجیوں کے درمیان عارضی جنگ بندی ہوئی اور دونوں دشمنوں نے مل کر کرسمس کے نغمے گائے اور کرسمس کے دن تحائف کا تبادلہ کیا۔
تصویر: gemeinfrei
کابل میں کرسمس
25 دسمبر سن 1979 وہ تاریخ ہے جب سویت یونین نے افغانستان میں پہلی بار حملہ کیا اور حملے کے دو دن بعد صدر حافظ اللہ امین کو اپنے کمانڈوز کے ذریعے گرفتار کر لیا۔ یہی حملہ اس نو سالہ جنگ کی ابتدا بنا جس کا اختتام سویت یونین کی افغانستان سے واپسی پر ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpa
ورلڈ وائڈ ویب کی آزمائش
ابتدائی کمپیوٹر نیٹ ورک کا استعمال سن 1960 سے کیا جا رہا تھا تاہم 1990 میں کرسمس کے دن پہلی بار ورلڈ وائڈ ویب کی باقاعدہ آزمائش کی گئی۔ اس دن پہلی بار سائنسدانوں کا ویب براؤزر اور انٹرنیٹ سرور کے درمیان کامیاب رابطہ ہوا۔
تصویر: picture alliance / dpa
7 تصاویر1 | 7
پاپائے روم نے اپنے پیغام میں جزیرہ نما کوریا پر قیام امن کی ضرورت سے لے کر یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران کے حل، دنیا بھر میں بے گھر افراد اور تارکین وطن کے مسائل کے خاتمے، انسانوں کی اسمگلنگ اور جدید دور میں غلامی کی ہر قسم کی مکمل روک تھام کا ذکر کرتے ہوئے تفصیلی دعا مانگی اور کہا، ’’انسانی وقار کا ہمیشہ مکمل احترام اور مشترکہ اچھائیوں کی ہمیشہ تلاش کی جانا چاہیے۔‘‘
اس موقع پر ویٹیکن سٹی اور مجموعی طور پر پورے روم شہر میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کے تحت قریب 10 ہزار پولیس اہلکاروں کو خاص طور پر وہاں تعینات کیا گیا تھا۔
کس مذہب کے کتنے ماننے والے
دنیا بھر میں ہر دس میں سے آٹھ افراد کسی نہ کسی مذہبی برادری کا حصہ ہیں۔ امریکی تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے سات ارب سے زائد افراد میں کس مذہب کے کتنے پیرو کار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
مسیحی، آبادی کے تناسب سے پہلے نمبر پر
دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی مسیحیت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔ عالمی آبادی میں اِن کی حصہ داری قریب 31.5 فیصد بنتی ہے جبکہ ان کی کل تعداد تقریباﹰ 2.2 ارب ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
مسلمان
اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے، جس کے ماننے والوں کی تعداد 1.6 ارب مانی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کی عالمی سطح پر شرح 23.2 فیصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سیکولر یا ملحد
عالمی آبادی کا تقریباﹰ سولہ فیصد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو کسی مذہب میں یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
ہندوازم
تقریباﹰ ایک ارب آبادی کے ساتھ ہندو دنیا میں تیسری بڑی مذہبی برادری ہیں۔ یہ کُل آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
چینی روایتی مذہب
چین کے روایتی مذہب کو ماننے والوں کی کُل تعداد 39.4 کروڑ ہے اور دنیا کی آبادی میں اِن کی حصہ داری 5.5 فیصد ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
بدھ مت
دنیا بھر میں 37.6 کروڑ افراد بدھ مت کے پیرو کار ہیں۔ جن میں سے نصف چین میں آباد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS
نسلی مذہبی گروپ
اس گروپ میں مذہبی برادریوں کو نسل کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اس گروپ میں شامل افراد کی کُل تعداد قریب 40 کروڑ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Heunis
سکھ مذہب
اپنی رنگا رنگ ثقافت کے لیے دنیا بھر میں مشہور سکھوں کی کُل آبادی 2.3 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: NARINDER NANU/AFP/Getty Images
یہودی مذہب
یہودیوں کی تعداد عالمی آبادی میں 0.2 فیصد ہے جبکہ اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد 1.4 کروڑ کے قریب ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
جین مت
جین مذہب کے پیروکار بنیادی طور پر بھارت میں آباد ہیں ۔ جین مت کے ماننے والوں کی تعداد 42 لاکھ کے آس پاس ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Ut
شنتو عقیدہ
اس مذہب کے پیروکار زیادہ تر جاپان میں پائے جاتے ہیں اور اس عقیدے سے منسلک رسوم اُس خطے میں صدیوں سے رائج ہیں تاہم اس کے پیرو کاروں کی تعداد صرف تین ملین ہے۔