1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی: امریکی وزیر خارجہ کا دورہ ملتوی

2 جنوری 2020

عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یوکرائن اور چار دیگر ممالک کا اپنا دورہ ملتوی کر دیا ہے۔

USA | Mike Pompeo Pressekonferenz in Washington
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb

امریکی وزیر خارجہ جمعے سے یوکرائن سمیت پانچ یورپی اور وسطی ایشیائی ممالک کا دورہ شروع کرنے والے تھے۔ مائیک پومپیو کو اپنے اس دورے کی پہلی منزل یوکرائن کے دارالحکومت کییف پہنچنا تھا تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے بُدھ کے روز اعلان کیا کہ پومپيو اب واشنگٹن میں ہی رہیں گے اور عراق کی صورتحال پر کڑی نظر رکھیں گے تاکہ مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
بغداد میں ایران نواز ملیشیا کے امریکی سفارت خانے پر حملے کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں صورت حال کشیدہ ہے۔ تہران اور واشنگٹن کے مابین تناؤ میں ايک مرتبہ پھر غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ منگل اور بُدھ کے روز وسطی بغداد میں ہزاروں ایران نواز مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ مشتعل مظاہرین ’امریکا مردہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرين کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ مظاہرین نے امریکی سفارتخانے کے کچھ حصوں کو آگ لگا دی تھی اور کچھ مظاہرین نے سفارتخانے کے کمپاؤنڈ کی دیوار کو گھیرنے کی کوشش بھی کی۔ واشنگٹن نے بعد ازاں اعلان کیا تھا کہ سفارت خانے کے تمام اہلکار محفوظ رہے۔

بغداد میں قائم امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کا حملہتصویر: picture-alliance/AP/K. Mohammed


بغداد میں ایران کے حامی مظاہرین کی طرف سے امریکی سفارت خانے کا محاصرہ صرف ایک دن تک جاری رہا لیکن تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ اس سے عراق کے پیچیدہ سکيورٹی سيکٹر اور سفارتی تعلقات پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بغداد حکومت اپنے اتحادیوں، تہران اور واشنگٹن کے مابین اپنے غیر یقینی توازن کو برقرار رکھنے  کی جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ چھ عالمی قوتوں اور ایران کے 2015 ء ميں طے پانے والے جوہری معاہدے سے امریکی انخلا کے بعد ایران اور امریکا کے مابین تناؤ میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ علاقائی کشيدگی عراقی سکیورٹی فورسز کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ ان کے ليے ایک طرف امریکا کی طرف سے فوجی دستوں کو دی جانے والی تربیت ہے جبکہ دوسری جانب ایران کی حشد الشعبی فورسز کی پشت پناہی۔ اس صورتحال نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو مزید پيچيدہ بنا دیا۔

عراقی شہر سنجار میں ملیشیا حشد الشعبی کا پرچمتصویر: DW/S. Petersmann


سن 2014 میں قائم ہونے والی حشد الشعبی فورس اب باضابطہ طور پر عراق کی سرکاری فوج کا ایک حصہ ہے اور اس کے نامزد سربراہ فلاح الفیاض عراق کی قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ امریکا کو خدشہ ہے کہ اس نیٹ ورک کے شیعہ اکثریتی یونٹس، جن میں سے بیشتر 2003 ء میں امریکی فوجی کارروائی کے بعد امریکی افواج کا مقابلہ کرتے تھے، ایران کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ ایران اور امریکا کے مابین یہ تناؤ پچھلے ہفتے اس وقت بڑھ گیا جب عراق میں کام کرنے والا ایک امریکی ٹھیکیدار، ایک ایسے راکٹ حملے میں مارا گیا جس کا ذمہ دار ایران نواز اور سخت گیر موقف کے حامل ایک گروپ کو ٹھہرایا گیا۔ امریکی فوجیوں اور عراق میں سفارت خانے پر حملوں کے سلسلے کا يہ تازہ ترین واقعہ تھا، جس کا الزام امریکا نے تہران کے حامی گروہوں پر عائد کیا ہے۔
ایک سینیئر امریکی دفاعی عہدیدار نے اے ایف پی سے بات چيت ميں کہا کہ امریکا مایوس ہے کہ ’عراقی فوج راکٹ حملوں کو روکنے کی یا تو اہل نہیں تھی یا انہيں روکنا نہيں چاہتی تھی۔‘


ک م/ ع س/ ڈی پی اے، اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں