سعودی عرب ایران کے خلاف کئی محاذوں پر جارحانہ طریقے سے نمٹنے کی کوشش میں ہے، جس سے مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں مزید شدت پیدا ہو سکتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود مشرق وسطیٰ میں ایران کا اثرورسوخ کم نہیں ہو سکا ہے۔
اشتہار
مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے مابین جاری سرد جنگ کے باعث اس خطے میں کئی تنازعات پیدا ہو چکے ہیں۔ سعودی شاہ سلمان کے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط بناتے ہوئے علاقائی سطح پر تبدیلیاں لانے کے لیے پرعزم ہیں۔
ملکی وزارت دفاع کے سربراہ کے طور پر محمد بن سلمان نے نہ صرف یمن میں جنگی کارروائی شروع کی بلکہ اس خطے کے دیگر ممالک میں بھی سعودی مفادات کے تحفظ کے لیے تیار ہیں۔
کئی ناقدین یمن کی خانہ جنگی کو سعودی عرب اور ایران کے مابین ایک پراکسی وار قرار دیتے ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں فعال ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف عسکری کارروائی شروع کی تھی۔
سفارتی اور جنگی محاذوں پر جاری اس جدوجہد کے باوجود ریاض حکومت ابھی تک ایران کا اثرورسوخ ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ دوسری طرف ایران ہمسایہ ملک عراق اور شام میں جنگی صورتحال کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش میں ہے۔
اس صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سعودی عرب اپنے روایتی حریف ملک ایران کے خلاف زیادہ سخت حکمت اختیار کرے گا؟ فی الحال یہ بات واضح ہے کہ سعودی حکومت کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
اس کی تازہ مثال گزشتے ہفتے ہی دیکھی گئی، جب یمن میں فعال حوثی باغیوں نے جب ریاض پر بیلسٹک میزائل داغا تو امریکی حکومت نے اس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور فوری طور پر ریاض حکومت کے بیانیے کی حمایت کر دی کہ یہ حملہ دراصل ایرانی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ایران اور حوثی باغی دونوں ہی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں کہ یہ راکٹ ایرانی تھا۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے بھی کہا ہے کہ حوثی باغیوں کو میزائل فراہم کرنے پر ایران کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ایران کی طرف سے حوثی باغیوں کو میزائل فراہم کرنا دراصل سعودی عرب کے خلاف براہ راست جارحیت کے مترداف ہے۔ سکیورٹی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر سعودی عرب اور ایران کے مابین براہ راست کوئی بھی عسکری معرکہ خطے کے عدم استحکام کا باعث بنے گا۔
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔