مشرق وسطیٰ کے لئے نئی ممکنہ یورپی پالیسی، اسرائیل قدرے ناراض
8 دسمبر 2009اسرائيل کے وزيراعظم نيتن ياہو اور فلسطينی وزير اعظم فياض دونوں اس کوشش ميں ہیں کہ يورپی يونين کی اسرائيل سے متعلق نئی پاليسی کے اعلان سے پہلے وہ يورپی رہنماؤوں کی حمايت حاصل کرليں۔ اس ششماہی ميں يورپی يونين کے صدر سوئيڈن نے يہ تجويز پيش کی ہے کہ يروشلم کو تقسيم کرديا جائے اور مشرقی يروشلم کو، جو اس وقت اسرائيل کے قبضے ميں ہے، مستقبل کی فلسطينی رياست کا دارالحکومت تسليم کرليا جائے۔
يورپی ملکوں نے سن 1967ء میں مشرقی يروشلم کو اسرائيل ميں ضم کرلينے کے فيصلے کو کبھی تسليم نہيں کيا اور بقيہ عالمی برادری بھی اسے تسليم نہيں کرتی۔ يورپی يونين اپنی مشرق وسطی سے متعلق جس نئی پاليسی پر غور کررہی ہے اس کے مسودے میں کہا گيا ہے: ’’اگر حقيقی امن قائم کرنا ہے تو يروشلم کو فلسطين اور اسرائيل دونوں رياستوں کے دارالحکومت کی حيثيت دينے کے مسئلے کا کوئی حل نکالنا ہوگا۔‘‘
اسرائيلی حکومت نے کہا ہے کہ سوئيڈن کی اس تجويز سے، اسرائيل اور فلسطينيوں کے مابين مذاکرات کرانے کے سلسلے ميں ايک فريق کی حيثيت سے يورپ کے کردار کو ايک شديد دھچکہ لگا ہے۔ سوئيڈن کے پيش کردہ يورپی اعلان کے مسودے ميں يہ اشارہ بھی ديا گیا ہے کہ اگر فلسطينيوں اور اسرائيل کے مابين براہ راست امن مذاکرات ناکام ہوگئے تہ يورپی يونين فلسطينيوں کی طرف سے يک طرفہ اعلان آزادی کو تسليم کرلے گی۔
اسرائيلی وزير اعظم کے قريبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائيل اپنے حامی عالمی سياسی رہنماؤں سے کہہ رہا ہے کہ وہ سوئيڈن کی تجويز کی مخالفت کريں اور فلسطينی انتظاميہ پر دباؤ ڈاليں کہ وہ کسی قسم کی پيشگی شرط عائد کئے بغير ہی اسرائيل کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوجائے۔
دوسری طرف فلسطينی وزير اعظم فياض يورپی يونين کی حوصلہ افزائی کررہے ہيں کہ وہ سوئيڈن کی تجويز منظور کرلے۔ سوئيڈن اپنی اصل تجويز پر قائم ہے کہ مشرقی يروشلم کو مستقبل کی فلسطينی رياست کا دارالحکومت قرار دے ديا جائے اور اُسے،برطانيہ،آئرلينڈ اور بيلجيم کی حمايت حاصل ہے،جبکہ فرانس کا کہنا ہے کہ يروشلم کو اسرائيل اور فلسطين دونوں کا دارالحکومت ہونا چاہئے۔
يورپی يونين نے سن2008ء ميں اسرائيل کے ساتھ تعلقات کو مزيد بہتر بنانے کا فيصلہ کیا تھا ليکن اس پر عملدرآمد کو غزہ کی جنگ کے بعد ملتوی کرديا گيا کيونکہ اس جنگ ميں بہت سے فلسطينی مارے گئے، غزہ کو بيرونی دينا سے منقطع کرديا گيا اور يورپی امدادی اشياء کو وہاں جانے سے روکا گيا۔ غزہ کی يہ اسرائيلی ناکہ بندی ابھی تک جاری ہے۔ اس کے باوجود جرمنی اور مشرقی يورپی ممالک اس پر مسلسل زور دے رہے ہيں کہ اسرائيل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنايا جائے۔ جرمنی کے رکن يورپی پارليمان ايلما بروک کے خيال ميں اس طرح اسرائيل کو فلسطينيوں کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ کرنے ميں مدد ملے گی۔ تاہم، اسپين، ہالينڈ، اسکينڈی نيويائی ممالک اور فرانس کے اراکين يورپی پارليمان، ان کے اس خيال سے متفق نہيں ہيں۔ فرانس کے يورپی رکن پارليمان باؤديس نے کہا کہ نيتن ياہو ابھی حال ہی ميں مشرقی يروشلم ميں يہودی بستيوں کی تعمير کے نئے منصوبے کا اعلان کرچکے ہيں۔
رپورٹ : Martin Durm / ترجمہ: شہاب احمد صدیقی
ادارت : عاطف توقیر