مشرق وسطیٰ میں ایک فوجی اتحاد کے قیام کی افواہیں تیزی سے گردش کر رہی ہیں، ’عرب نیٹو‘ کے نام سے ایک ایسا اتحاد جس میں اسرائیل بھی شامل ہو گا۔ لیکن کیا ان افواہوں میں کوئی حقیقت بھی ہے؟
اشتہار
گزشتہ ہفتے کے آخر میں اردن کے بادشاہ کی وہ بات شہ سرخیوں کی زینت بن گئی، جب انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایک ایسے فوجی اتحاد کی حمایت کریں گے، جو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرز پر قائم کیا جائے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این بی سی کے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے اردن کے شاہ عبداللہ ثانی نے کہا، ''میں ان اولین لوگوں میں سے ایک ہوں گا، جو مڈل ایسٹ نیٹو کی حمایت کریں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم سب جمع ہو رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ہم کیسے ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں؟ ... جو میرے خیال میں اس خطے کے لیے ایک غیر معمولی بات ہے۔‘‘
'عرب نیٹو‘ کے قیام سے متعلق افواہیں دوسری جانب سے بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹس نے کہا تھا کہ اسرائیل نے امریکی سربراہی میں قائم ہونے والے ایک ایسے اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی ہے، جسے انہوں نے 'مڈل ایسٹ ایئر ڈیفنس الائنس‘ یا MEAD کا نام دیا تھا۔ تاہم گینٹس نے یہ واضح نہیں کیا کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر کون کون سے ملک اس اتحاد میں شامل ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا ادارے، جن میں روئٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس بھی شامل ہیں، اسرائیل کے اس بیان یا اس اتحاد کے نام کی تصدیق نہیں کر سکے۔
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Nabil
10 تصاویر1 | 10
پھر رواں ہفتے کے آغاز پر وال اسٹریٹ جرنل نے ایسی خفیہ میٹنگز کے بارے میں رپورٹ کیا، جو مصر میں ہوئیں اور جن میں اسرائیل، سعودی عرب، قطر، اردن، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے فوجی حکام کو شریک ہوتے ہوئے دیکھا گیا اور جنہوں نے دفاع کے معاملے پر تعاون کے بارے میں غور کیا۔
امن کے لیے اتحاد؟
'عرب نیٹو‘ کے قیام کی کئی ایک قابل فہم وجوہات بھی ہیں۔
امریکا جو مشرق وسطیٰ میں امن قائم رکھنے کا ذمہ دار ہے، گزشتہ کئی برسوں کے دوران بتدریج اس خطے سے نکل رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کو یہ بات قاہرہ کے پولیٹیکل اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مرکز الاہرام سنٹر کے ماہر احمد السید احمد نے بتائی۔
ان کا کہنا تھا، ''عرب اب اس بات سے کافی آگاہ ہیں کہ ماضی میں زیادہ تر مغربی قوتوں پر انحصار کرنے کی حکمت عملی، خاص طور پر امریکا پر، اب زیادہ کامیاب نہیں رہے گی۔ اب علاقائی مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک مختلف نقطہ نظر موجود ہے تاکہ استحکام حاصل کیا جائے اور معیشت میں بہتری لائی جا سکے، خاص طور پر کووڈ انیس کی عالمی وبا اور یوکرین کی جنگ کے تناظر میں۔ اس رویے کو اس خواہش کے ساتھ تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ خطے میں مسائل ختم کیے جائیں۔‘‘
یہ حقیقت کہ اس اتحاد میں اسرائیل بھی شامل ہو گا، بذات خود اہم ہے۔ عرب ممالک جو ایران یا خطے میں ایرانی حمایت یافتہ قوتوں کی طرف سے فضائی حملوں سے خوفزدہ ہیں، وہ اسرائیل کے جدید فضائی دفاعی نظام کی صلاحیتوں سے مستفید ہونا چاہیں گے۔
احمد السید احمد کہتے ہیں، ''ہدف یہ ہے کہ اسرائیل کو بھی مڈل ایسٹ کے ملٹری اتحاد میں شامل کیا جائے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ اصل میں اسرائیل اور اس کی ہمسایہ عرب ریاستوں کے درمیان 2020ء میں ہونے والے معاہدے کا تسلسل ہی ہے۔ یہی معاہدہ اصل میں اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی وجہ بنا۔
اشتہار
'عرب نیٹو‘ کی ہیئت کیسی ہو گی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کسی دفاعی اتحاد میں ممکنہ طور پر وہ ریاستیں شامل ہوں گی، جن کے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے تعلقات موجود ہیں۔ ان میں 'ابراہام اکارڈ‘ پر دستخط کرنے والے ممالک شامل ہیں، یعنی متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش۔ اس کے علاوہ اردن اور مصر بھی ہیں، جو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے تھے۔
سعودی عرب، عمان، قطر اور کویت بھی اس اتحاد میں کردار ادا کر سکتے ہیں اور امریکا، جس کا اس طرح کے کسی معاہدے میں اہم ترین کردار ہو گا، وہ بھی یقینی طور پر اس اتحاد کا حصہ ہو گا۔
اس تمام تر صورتحال کے باوجود مبصرین کا خیال ہے کہ اس بات کے امکانات کم ہی ہیں کہ مشرق وسطیٰ حقیقی نیٹو کی طرز کے کسی اتحاد تک مستقبل قریب میں پہنچ سکے۔
واشنگٹن میں قائم 'سنٹر فار اے نیو امیریکن سکیورٹی‘ CNAS میں ڈیفنس پروگرام کی فیلو بیکا واسر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اس وقت ایک وسیع علاقائی تعاون کے لیے زیادہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی میرا خیال ہے کہ 'عرب نیٹو‘ کے اس خیال کو عملی جامہ پہنانا بہت جلد ممکن نہیں ہو سکے گا۔‘‘
الاہرام سنٹر کے احمد السید احمد بھی اسی سوچ سے اتفاق کرتے ہیں، ''عرب نیٹو کا خیال پہلے بھی کئی مرتبہ سامنے آ چکا ہے۔ مگر آج کے دن تک یہ کبھی عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔ کم از کم مستقبل قریب میں تو یہ نہیں ہو گا۔‘‘