’مشرق وسطی ميں قيام امن کے ليے منصوبہ جلد پيش کيا جائے گا‘
24 جون 2018
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور سينئر مشير جیرڈ کشنر نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ ميں قيام امن کے ليے جلد ايک منصوبہ پيش کيا جائے گا، خواہ فلسطينی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اس کا حصہ بنيں يا نہيں۔
اشتہار
جیرڈ کشنر نے سوال اٹھايا ہے کہ آيا مشرق وسطی ميں قيام امن کے ليے محمود عباس فيصلہ سازی کی صلاحيت رکھتے ہيں؟ امريکی صدر کے مشير کشنر کا ايک انٹرويو عربی زبان ميں فلسطينی اخبار القدس ميں ہفتے کے روز چھپا۔ اس انٹرويو ميں کشنر نے کہا، ’’اگر صدر عباس مذاکرات کی ميز پر آنے کے ليے تيار ہيں، تو ہم ان کے ساتھ بات چيت کو تيار ہيں۔ ليکن وہ ايسا نہيں کرتے، تو ہم امکاناً مشرق وسطی ميں قيام امن کا ايک نيا منصوبہ عوام کے سامنے پيش کر سکتے ہيں۔‘‘ اپنے اس انٹرويو ميں انہوں نے مزيد کہا کہ وہ يہ سوال اٹھاتے ہيں کہ آيا محمود عباس کسی امن ڈيل کو حتمی شکل دينے کی صلاحيت رکھتے ہيں اور کيا وہ ايسا کرنا چاہتے بھی ہيں؟ کشنر کے بقول عباس پچھلے پچيس برسوں سے اپنے انہی نکات پر بات کر رہے ہيں اور وہ بالکل نہيں بدلے۔
جیرڈ کشنر خصوصی امريکی مندوب جيسن گرين بلاٹ کے ہمراہ ان دنوں مشرق وسطی کے دورے پر ہيں۔ جمعے اور ہفتے کے روز انہوں نے اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو سے ملاقات کی۔ اس سے قبل کشنر اردن، سعودی عرب، قطر اور مصر جا چکے ہيں اور نيتن ياہو کو انہوں نے مطلع کيا کہ عرب رہنماؤں نے ان سے کہا ہے کہ وہ ايک فلسطينی رياست کا قيام چاہتے ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ امريکی سفارت خانے کی تل ابيب سے يروشلم منتقلی کے حاليہ امريکی فيصلے کے تناظر ميں احتجاجاً عباس نے امريکی ٹيم سے ملاقات کرنے سے منع کر ديا تھا۔ فلسطينی شہريوں کی خواہش ہے کہ مستقبل ميں ان کی رياست کا دارالحکومت مشرقی يروشلم ميں ہو۔
جیرڈ کشنر کے تازہ انٹرويو پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے صدر عباس کے ترجمان نبيل ابو رِدينیٰ نے کہا ہے کہ مشرق وسطی ميں قيام امن کا راستہ تو پہلے ہی سے واضح ہے، دو رياستی حل، سن 1967 کی سرحدوں کے تحت فلسطينی رياست کا قيام اور اس کا دارالحکومت يروشلم۔ نبيل ابو ردينیٰ نے کہا، ’’کسی بھی ملاقات اور مذاکراتی عمل ميں بات اسی پر ہو گی۔‘‘
جیرڈ کشنر نے کسی ممکنہ ڈيل کی تفصيلات بيان کرنے سے فی الحال انکار کر ديا ہے۔ تاہم عام تاثر يہی ہے کہ ان کی جانب سے عنقريب پيش کی جانے والی ڈيل ميں فلسطينيوں اور اسرائيل کے مابين بنيادی تنازعات کے حل کے ليے تجاويز پيش کی جائيں گی۔
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔