1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق و مغرب کے درمیان کشیدگی کے اسباب اور ممکنہ حل

22 ستمبر 2006

عراق اور افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کی فوجی کاروائی، پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی اشاعت، اسرائیل فلسطین تنازعہ، لبنان کے خلاف اسرائیلی کا حالیہ فوجی حملہ اور پوپ بینی ڈکٹ کی حالیہ تقریر نے مسلمان دنی اکو مغرب سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تصویر: AP


اگرچہ ہر دور میں تہذیبوں ، تمدنوں، قوموں اور مذاہب و ادیان کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی کی کوشش کرنے والوں کی کمی نہیں رہی لیکن ضروری نہیں کہ ہر دور میں عالمی حالات بھی ایسے ہوں جن میں اس قسم کے موضوعات و مسائل پر بحث و گفتگو کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہو۔

ماہرین ادیان و سماجیات کاکہنا ہے کہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نظریہ سامنے آنے اور 11 ستمبر کے بعد دنیا میں آنے والی تبدیلی نے مشرق و مغرب اور خاص طور پر عالم اسلام اور مغربی دنیا کے درمیان ایک تصادم کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

ان حالات کو وجود میں لانے میں دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والے جنگ کے نتائج و اثرات کا بہت زیادہ عمل دخل ہے جن میں غلط فہمیاں بھی شامل ہیں اور سازش و شر پسندی کا عنصر بھی ۔

عراق اور افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کی فوجی کاروائی، پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی اشاعت، اسرائیل فلسطین تنازعہ، لبنان کے خلاف اسرائیلی کا حالیہ فوجی حملہ اور پوپ بینی ڈکٹ کی حالیہ تقریر نے مسلمان دنیاکو مغرب سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ۱۱ ستمبر کے واقعے کے علاوہ لندن اور میڈریٹ بم دھماکوں سمیت دنیا بھر میں امریکی اور مغربی باشندوں کے خلاف خود کش حملوں اور بالعموم عالم اسلام میں غیر مسلموں کے بارے میں پائی جانے والی شدت پسندانہ سوچ نے مغرب کو اسلامی دنیا سے دور کرنے میں مو¿ثرکردار ادا کیا ہے۔

لیکن بہرحال مجموعی طور پر حالیہ چند برسوں میں خاص طور پرتہذیبوں کے درمیان گفتگو کا نظریہ سامنے آنے کے بعد اسلام اور مغرب کو قریب لانے میں نمایاں علمی اور عملی خدمات انجام دی گئی ہیں جن میںمغرب اور اسلامی دنیا دنوں کے کمزور اور قابل اعتراض پہلووں کو اجاگر کیا گیا ہے اور ایک دوسرے کے بارے میں انتہا پسندانہ فکر رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔

مشرق و مغرب یا اسلامی اور مغربی دنیا کے درمیان گفتگو اور مکالمہ کے موضوع پر یہاں ڈوئچے ویلے میں بھی مذاکرہ اور علمی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں دنیا بھر کی اہم علمی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔

حال ہی میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کی کوشش سے پاکستان سے ادارہ تحقیق و تعلیم کے چیئر مین خورشید ندیم، اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ انٹرنیشل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے اسکالر فواد نعیم اورایزمپشن یونیورسٹی تھائی لینڈ کے شعبہ ادیان کے پروفیسر امتیاز یوسف نے ڈوئچے ویلے کا دورہ کیا تو ہم نے ان کے ساتھ اس موضوع پر ایک نشست کا اہتمام کیا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں