1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

مشکلات کے شکار غریب پاکستانی کاشتکار

بینش جاوید
7 نومبر 2017

پاکستان میں کئی کسان موسمیاتی تبدیلیوں کے پیشِ نظر کاشت کاری کے عمل میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم سرمایہ کاری اور تعلیم کی کمی کے باعث زیادہ تر کسانوں کے لیے یہ ایک مشکل عمل ثابت ہو رہا ہے۔

Bangladesch schwimmende Gärten
تصویر: DW

21 سالہ معیز اسد اللہ پاکستان کے صوبے سندھ میں سات ایکڑ زمین کی تنہا ہی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس کے والد کا انتقال سن 2011 میں ہو گیا تھا۔ اسد اللہ کے دو بھائیوں کو کاشت کاری میں کوئی دلچسپی اس لیے نہیں رہی کیوں کہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اب زراعت ایک منافع بخش کاروبار نہیں رہا۔

اسد اللہ لیکن مایوس نہیں ہے۔ اس نے بدلتے موسم کے مطابق ایک نئے پلان کا آغاز کیا۔ اسد اللہ نے تین برس قبل لاڑکانہ سے کچھ میل کے فاصلے پر واقع اپنے گاؤں بکرانی میں چاول کی کاشت اس لیے روک دی کیوں کہ اس میں بہت زیادہ مزدوری درکار ہوتی ہے اور چاول کی فصل تیار ہونے میں کئی مہینے لگتے ہیں۔ اب اسد اللہ چاول کی جگہ سبزیاں کاشت کرتا ہے، جو بہت جلد تیار ہو جاتی ہیں اور انہیں چاولوں کی نسبت پانی کی بھی کم ضرورت ہوتی ہے۔

تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دولت مند کسان، جو زیادہ زمین کے مالک ہیں اور تعلیم یافتہ بھی ہیں، اب تیزی سے نئے کاشت کاری کے نئے طریقے اپنا رہے ہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو ایک ایسے مستقبل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس  میں غیر یقینی موسمیاتی قوتوں کے باعث ایسے کئی کسان زراعت کا شعبہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے،  جو ملک کی اسّی فیصد زمین پر کاشت کاری کرتے ہیں۔

پاکستان میں کئی صوبائی محکمے بھی کسانوں کو مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیںتصویر: Greenpeace / Gigie Cruz-Sy

صوبے پنجاب میں کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی میں زرعی سائنسدان خدا بخش نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’غریب کسانوں کو تکنیکی، مالی اور اداراتی مدد  فراہم کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔‘‘ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چھوٹے کسانوں  کی مدد نہ کی گئی تو حکومت کی جانب سے خوراک کی کمی کو دور کرنے اور غربت میں کمی لانے کے اہداف حاصل کرنا ممکن نہ ہو پائے گا۔

اسد اللہ اب اپنے کھیتوں میں گوبھی، پالک، ہری مرچ، بند گوبھی، ٹماٹر اور پیاز کاشت کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اب کئی کسان، جو زیادہ زمین کے مالک ہیں، ’ڈرپ اری گیشن‘ جیسی تکنیکس کا استعمال کر رہے ہیں، جس سے پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اسد للہ بھی ایسا ہی کرنا چاہتا ہے لیکن ایسا  کرنے میں اسے زمین کے ہر ہیکٹر پر 700 ڈالر کی رقم خرچ کرنا پڑے گی۔

دوسری جانب صوبے سندھ میں ہی خیر پور کے علاقے میں نواز سومرو 80 ہیکٹر زمین پر لیزر کی مدد سے کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سومرو نے فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ تعلیم اور مالی وسائل کی بدولت اب وہ لیزر ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے، جس  کے ذریعے اب فصل کو کم پانی درکار ہوتا ہے۔

اب کئی کسان، جو زیادہ زمین کے مالک ہیں، ’ڈرپ اری گیشن‘ جیسی تکنیکس کا استعمال کر رہے ہیںتصویر: AP

فوڈ سکیورٹی کے ماہر اختر علی کا کہنا ہے کہ وہ کسان، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق کاشت کاری کے طریقوں کو تبدیل کر رہے ہیں، وہ فوڈ سکیورٹی میں 8 سے 13 فیصد بہتری لائے ہیں۔

پاکستان میں کئی صوبائی محکمے بھی کسانوں کو مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  سن 2016  میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے 120 ملین ڈالر کے ایک پروگرام کا آغاز کیا، جو کسانوں کو ایسی فصلیں اگانے میں مدد فراہم کر رہا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کر سکیں۔ گزشتہ برس صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کسانوں میں 5 ملین اسمارٹ فونز تقسیم کیے تھے۔ ان فونز کے ذریعے کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی اور کاشت کاری کے جدید طریقوں کے ساتھ ساتھ دیگر معلومات بھی فراہم کی جائیں گی۔ صوبہٴ سندھ میں اس سال سے  16000 چھوٹے کسانوں کی مدد کی جائے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں