پنجاب يونيورسٹی کے ايسوسی ايٹ پروفيسر عمار علی جان جب ايک روز يونيورسٹی پڑھانے پہنچے تو ان کے دفتر کو تالا لگا ہوا تھا۔ جامعہ پنجاب کی انتظامیہ نے انہیں تدریسی فرائض سرانجام دینے سے روک دیا۔
اشتہار
عمار علی جان سے خصوصی گفتگو
کیمبرج سے تعلیم یافتہ عمار علی جان بطور ايسوسی ايٹ پروفيسر پنجاب يونيورسٹی سے وابستہ تھے۔ يونيورسٹی انتظامیہ نے انہیں تدریسی فرائض سرانجام دینے سے روکے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ احکامات عمار کے ’’ریاست مخالف نظریات کو فروغ دینے کی اطلاعات‘‘ ملنے کے باعث جاری کیے گئے تھے۔ عمار ایسے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جامعہ کی انتظامیہ کو پسند نہیں کہ طلبہ سوال پوچھیں اور’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ سے ہمدردی کو بہانہ بناتے ہوئے عمار کو پڑھانے سے روکا گیا ہے۔
پاکستان کے رياستی ادارے اپنے ہی ملک کے دانشوروں اور اساتذہ سے محاذ آرائی پر کيوں آمادہ ہيں؟ عمار علی جان سے یہ پوچھا گیا تو ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’بہت عرصے سے يہ فضا بنی ہوئی ہے کہ کوئی بھی اگرتنقيدی سوچ رکھے، طالب علموں کے حقوق يا انسانی حقوق کے ليے آواز اٹھائے تو(کہا جاتا ہے کہ) اس سے رياست کو خطرہ ہے۔ جب کہ يونيورسٹيوں کا تو کام ہی طلبا میں تنقيدی سوچ اور سوچ کے عمل کو فروغ دينا ہے۔‘‘
عمار کا مزید کہنا تھا، ’’جب تک رياست اپنے شہريوں کو تحفظ کا احساس نہيں دے گی، ان کے بيچ اپنائيت کا رشتہ قائم نہيں ہو سکتا اور مجھے ڈر ہے کے يہ خليج بڑھتی ہی چلی جاے گی۔‘‘
ملک کی بڑی جامعہ میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد عمار سے اظہار يک جہتی کرتے ہوئے نہ صرف ان کے طلبا احتجاج کر رہے ہیں بلکہ صحافی اور پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ادارے بھی اس عمل کی مذمت کر رے ہيں۔
جولیاں: پاکستان میں بدھ مت کی قدیم ترین یونیورسٹی
یونیسکو کی طرف سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دی گئی جولیاں کی قدیم بدھ خانقاہ اور یونیورسٹی کی تاریخی باقیات پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں محفوظ ہیں۔ جولیاں صوبہ پنجاب میں ٹیکسلا کے بہت ہی قریب واقع ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گندھارا کی تہذیب
راولپنڈی کے قریب پوٹھوہار کے پہاڑی سلسلے میں ٹیکسلا اور صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے درمیان ایک نہر کے پاس لیکن ٹیکسلا کی وادی کے مقابلے میں تین سو فٹ کی بلندی پر واقع جولیاں میں بدھ مت کی قدیم ترین درس گاہ کی تاریخی باقیات گندھارا کی اس تہذیب کے بیش قیمت آثار ہیں، جس کا عرصہ سن پندرہ سو قبل از مسیح سے لے کر پانچویں صدی بعد از مسیح تک پھیلا ہوا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عالمی ثقافتی ورثہ
پاکستان میں مختلف تہذیبوں اور ادوار کے متعدد مقامات کو یونیسکو نے اپنی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ انہی میں ٹیکسلا بھی شامل ہے، جسے کسی ایک مقام کے طور پر نہیں بلکہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس کے طور پر ورلڈ ہیریٹیج سینٹر نے انسانیت کے عالمگیر ثقافتی ورثے میں سن انیس سو اسی میں شامل کیا تھا۔ اس حوالے سے جولیاں کی بدھ خانقاہی درس گاہ ٹیکسلا کمپلیکس ہی کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بھکشو طلبہ کے کمرے
بدھ مت کی دنیا کی اس قدیم ترین خانقاہ اور یونیورسٹی کی عمارت کا ایک بڑا حصہ اس طرح کے پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑوں اور مٹی سے بنائے گئے درجنوں ایسے چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل ہے، جن میں آج سے قریب سولہ سترہ صدیاں قبل وہاں مذہب، فلسفے اور روحانیت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ رہا کرتے تھے۔ زمین سے کچھ اونچے بنائے گئے ان رہائشی کمروں میں سے اب کسی کی بھی چھت باقی نہیں لیکن دیواریں ابھی تک محفوظ ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خانقاہ کا مرکزی استوپ
جولیاں کی خانقاہ میں درس گاہ کے طلبہ کے رہائشی کمروں اور ان کے نہانے کے لیے بنائے گئے وسطی تالاب سے کچھ دور اس یونیورسٹی کا ایک مرکزی استوپ یا بدھ اسٹُوپا تھا، جس کے ارد گرد بدھ بھکشو اور طلبہ عبادت کیا کرتے تھے۔ گزشتہ قریب ڈیڑھ دو ہزار سال کے دوران اس مرکزی استوپ کو تو بہت زیادہ نقصان پہنچا لیکن اس کے ارد گرد بنائے گئے اکیس چھوٹے چھوٹے استوپ آج بھی کافی بہتر حالت میں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اکیس ضمنی استوپ
مرکزی استوپ کے ارد گرد آج بھی اکیس ایسے ضمنی استوپوں کی باقیات موجود ہیں، جو مرکزی استوپ کے بعد وہاں بنائے گئے تھے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے ایک چھت کے ذریعے موسمی اثرات سے محفوظ کیے جانے کے بعد جولیاں کی بدھ خانقاہ کا یہ حصہ کچے فرش پر بنائے گئے ایسے استوپوں پر مشتمل ہے، جن پر مٹی اور گارے سے بنائی گئی مہاتما بدھ کی بہت سی چھوٹی بڑی شبیہات اور مجسمے آج بھی احترام و تقدیس کی عکاسی کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مٹی اور پتھروں سے دیرپا تعمیر
یہ تصویر دکھاتی ہے کہ قریب دو ہزار سال پہلے بھی وہاں کے بدھ عقیدت مندوں نے کس طرح صرف پتھروں اور مٹی کا استعمال کرتے ہوئے یہ استوپ یوں تعمیر کیے کہ کئی تباہ کن زلزلوں اور صدیوں کی شکست و ریخت کے بعد وہ آج بھی متاثر کن حد تک اچھی حالت میں ہیں۔ پتھروں کے چوکور ڈھیر پر مٹی کے لیپ کے بعد ہاتھ سے بنائی گئی مہاتما بدھ کی شبیہات اور مجسمے اس روحانی سکون اور ذہنی توجہ کا نتیجہ ہیں، جو بدھ مت کا خاصا ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
طواف کے لیے راہداری
مرکزی استوپ کے ار گرد بنائے گئے درجنوں ضمنی استوپوں کو اس طرح تعمیر کیا گیا کہ تب وہاں سے گزرنے والے بھکشو ان استوپوں کے درمیان میں بن جانے والی تنگ راہداریوں سے گزرتے ہوئے مرکزی استوپ کا طواف کر سکتے تھے۔ ان راہداریوں میں جگہ جگہ نظر آنے والے مہاتما بدھ کے مجسموں میں سے اب بہت ہی کم اپنی مکمل حالت میں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بالائی منزل کو جانے والی سیڑھیاں
ایک خاص طرز تعمیر کے ساتھ اور بڑے متناسب انداز میں دوسری تیسری صدی بعد از مسیح میں تعمیر کی گئی یہ سیڑھیاں جولیاں کی خانقاہ اور یونیورسٹی کی اس بالائی منزل تک جاتی ہیں جہاں دائیں بائیں دونوں طرف عبادت کے لیے برآمدے موجود ہیں۔ خانقاہ کے تالاب میں نہا کر اور عبادت کے لیے بڑی تعظیم کے ساتھ قطار در قطار چلنے والے بدھ طلبہ اور بھکشو صبح شام انہی سیڑھیوں سے گزرا کرتے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’مہاتما بدھ کے دوست‘ کا عطیہ
خانقاہ میں مہاتما بدھ کا ایک ایسا خاص مجسمہ بھی ہے، جس میں انہیں عبادت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی لیے اس مجسمے کو ’محو عبادت مہاتما بدھ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس مجسمے کے نیچے لکھی گئی تحریر اس بدھ عقیدت مند کا نام ہے، جس نے یہ مجسمہ اس دور میں اس خانقاہ کو تحفے میں دیا تھا۔ یہ نام ’بدھا مترا دھرم آنند‘ ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں تحریری زبان بھی استعمال کی جاتی تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مکمل حالت میں مہاتما بدھ کے کئی مجسمے
اس تصویر میں ایک سے زائد تعمیراتی سطحوں والا ایک ایسا استوپ نظر آ رہا ہے، جس کی بیرونی دیوار پر بنے عبادت کرتے ہوئے مہاتما بدھ کے متعدد مجسمے اپنی مکمل اور اصلی حالت میں موجود ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والے پینتالیس سالہ رفاقت بیگ ایک سائٹ اٹینڈنٹ ہیں، جو گزشتہ اٹھائیس برسوں سے وہاں سرکاری ملازم کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں اور سیاحوں کے لیے گائیڈ کا کام بھی کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
طلبہ کا اسمبلی ہال
یہ جگہ طلبہ کے جمع ہونے کی جگہ تھی، جہاں ہر روز طلبہ تعلیم کے لیے اکٹھے ہوتے تھے۔ یہ اوپن ایئر برآمدہ کافی اچھی حالت میں ہے لیکن اگر وہاں لگائے گئے محکمہ آثار قدیمہ کے ٹوٹے ہوئے معلوماتی بورڈ کو دیکھا جائے تو علامتی طور پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں موجود یونیسکو کے تسلیم کردہ اس عالمی ثقافتی ورثے کا دھیان شاید اس سے زیادہ اچھی طرح رکھا جا سکتا تھا جیسا کہ اب تک رکھا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نکاسی آب کا نظام
قریب دو ہزار سال قبل یہ جگہ اس خانقاہ میں رہنے والے بدھ عقیدت مندوں کے زیر استعمال آنے والے کھانا پکانے اور کھانے کے برتنوں کو دھونے کی جگہ تھی۔ اس سے متصل ایک باورچی خانہ تھا، جس کے ساتھ ہی طعام خانے کے مہتمم کے رہنے کا کمرہ ہوتا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گندم پیسنے کی چکی
وہ پتھریلی چکی نظر آ رہی ہے، جسے استعال کرتے ہوئے خانقاہ کے رہائشیوں کے لیے گندم اور دیگر اجناس کو پیس کر روٹی کے لیے آٹا بنایا جاتا تھا۔ جولیاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ درویشوں کے رہنے کی جگہ تھی۔ دستاویزی طور پر جولیاں کو اس کا موجودہ نام برطانوی نوآبادیاتی دور میں دیا گیا تھا، جب اس علاقے میں آثار قدیمہ کے انگریز ماہرین نے کھدائی کی تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مہاتما بدھ بطور مسیحا
یہ تصویر جولیاں کی عالمی ثقافتی میراث میں شامل تاریخی باقیات میں سے اہم ترین تاریخی نمونہ ہے۔ یہ مجمسہ ’شفا دینے والے مہاتما بدھ‘ یا Healing Buddha کا مجسمہ ہے، جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں آنے والے عقیدت مند اور مقامی طلبہ اس مجسمے کے ناف کے حصے والی جگہ پر بنے سوراخ میں اپنی دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی ڈال کر اپنے بیمار عزیز و اقارب کے لیے صحت کی دعا مانگا کرتے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
14 تصاویر1 | 14
عمار کے مطابق، ’’جب ریاست سوالوں سے خوفزدہ ہو جائے اور اسے لگے کہ اس کے پاس جواب نہیں ہیں، تب وہ ہر سوال کرنے والے کو باغی سمجھنے لگتی ہے۔ اگر آپ صحيح سوال پوچھنے کی گنجائش پيدا نہيں کرتے تو یہ نشانی ہے ايک بہت ہی کمزور اسٹيبلشمنٹ کی، کمزور حکومت اور حکمرانوں کی۔‘‘
امريکا کے شہر نيويارک ميں مقيم پاکستانی صحافی حسن مجتبیٰ نے اس واقعے کے حوالے سے بات چيت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ايک وقت تھا کہ لفظ بنگال کالعدم قرار دے ديا گيا تھا، آج پھر ویسی ہی فضا ہے اور آج پشتون تحفظ موومنٹ اس عتاب کا شکار ہے اور عمار علی جان بھی اسی عتاب کا نشانہ بنے ہيں۔‘‘حسن مجتبیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’پی ٹی ايم کو جس طرح عوامی حمايت مل رہی ہے اس سے جمہوريت اور آمريت کا تضاد کھل کے سامنے آ رہا ہے‘۔
گزشتہ برس تدریس کے شعبے ہی سے وابستہ پروفيسر سلمان حيدر بھی ’جبری گمشدگی‘ کا نشانہ بنے تھے۔ عمار علی جان کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے سے متعلق ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان حيدر کا کہنا تھا، ’’ملک ميں جو بھی واقعات ہوں چاہے وہ سماجی ہوں، معاشی يا سياسی، اگر ان پر يونيورسٹیيوں ميں بات نہيں ہو گی تو پھر کہاں ہو گی؟ ریاست کے خیال میں سماج ميں اٹھنے والی سياسی تحريکوں پر مباحثوں کے ليے اگر يونيورسٹی بھی ايک مناسب جگہ نہيں ہے تو پھر اسٹيبلشمنٹ يہ پيغام دينے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہی ہے اسے کرنے ديا جائے اور لوگ منہ پر تالے لگا کر بيٹھ جائيں۔‘‘
اس قسم کے واقعات کو سلمان ایک اور طرح کی انتہا پسندی قرار دیتے ہیں: ’’اگر ہماری اسٹيبلشمنٹ اور رياست انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہيں تو يہ طريقہ کار ٹھيک نہيں، يہ تو خود ايک طرح کی انتہا پسندی ہے، مذہبی نہ سہی رياستی سہی۔ انتہا پسندی کو ختم کرنے کے ليے ضروری ہے کہ مختلف آرا کے اظہار کو جگہ دی جائے اور لوگ اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت خود کو غير محفوظ محسوس نہ کريں۔‘‘
پاکستانی شہر سوات میں مقامی طلباء میں سائنس اور تحقیق میں دلچسپی پیدا کرنے کے مقصد سے دو روزہ سائنس میلے کا آغاز سیدو شریف میں منگل کے روز ہوا۔
تصویر: Swat Science Festival
سائنس میلے کا انعقاد
میلے کا انعقاد غیر سرکاری تنظیم ادھیانہ، سوات ایجوکیشن ڈپارٹنمنٹ اور پاکستان الائنس فار میتھ اینڈ سائنس کے تعاون سے کیا گیا۔ ڈسٹرکٹ سوات سے تقریبا 130 سے زائد سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے 5000 لڑکوں اور 1500 لڑکیوں نے میلے میں لگے اسٹالز کا دورہ کیا۔
تصویر: Swat Science Festival
ملالہ کا پیغام
سوات سے تعلق رکھنے والی دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے بھی سوات سائنسی فیسٹیول میں خاص طور پر طالبات کی شمولیت کو سراہا۔ حال ہی میں ملالہ نے سوات کا دورہ بھی کیا تھا ور یہاں تعلیم کے فروغ کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا تھا۔
تصویر: Swat Science Festival
مختلف تجربات
اس میلے میں روبوٹکس، ہائیڈرولکس اور الیکٹرک سرکٹ کے مختلف تجربات ديکھنے کو ملے۔ مقامی تعلیمی اداروں کے طلباء اور ملک بھر سے آئی چھ مختلف سائنسی تنظیموں لرن و بوٹس، سٹیمر، نیومیریکا، پاکستان سائنس کلب، اے زیڈ کارپس اور سبق کی جانب سے مختلف نمونے پيش کيے گئے۔
تصویر: Swat Science Festival
حالات بہتری کی جانب گامزن
سوات 2007ء سے سن 2009 میں بد امنی کا شکار تھا اور وہاں لڑکیوں کے لیے تعلیم کے مواقع تقریبا ختم ہو گئے تھے۔ اب حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں دوبارہ اسکولوں میں جا رہے ہیں۔
تصویر: Swat Science Festival
ایسے میلوں کے ملک بھر ميں انعقاد کا مطالبہ
سوشل میڈیا پر بھی ہیش ٹیگ سوات سائنس فیسٹیول ٹرینڈ کر رہا تھا۔ کئی صارفین نے اس فیسٹیول میں شریک مقامی طلبا و طالبات کی تصاویر کو شیئر کیا اور مستقبل میں ایسے میلوں کے ملک بھر ميں انعقاد کا مطالبہ کیا۔