دنیا بھر میں مشہور پاکستانی ٹرک آرٹ اب سڑکوں کی بجائے آسمان میں سفر کرے گی۔ ایک فلائنگ اکیڈمی نے اپنے دو سیٹوں والے سیسنا طیاروں کو اس رنگین آرٹ سے مزین کروایا ہے۔
اشتہار
پاکستان کی ٹرک آرٹ کو دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی ہے۔ کئی مغربی ممالک میں کی آرٹ گیلریوں میں اس آرٹ کو پیش کیا جا چکا ہے اور کئی بین الاقوامی اسٹوروں سے ایسی چھوٹی چھوٹی اشیاء ملتی ہیں، جن پر آپ کو پاکستانی ٹرک آرٹ کے رنگ نظر آتے ہیں۔ کئی مغربی ملکوں میں نہ صرف کاروں بلکہ بڑی گاڑیوں کو بھی اس مخصوص آرٹ سے خوبصورت بنایا جا چکا ہے۔ چند برس پہلے جب اس ٹرک آرٹ کو دنیا کے سامنے لایا گیا تو اس کا مقصد دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہوئے پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنا تھا۔
فلائٹ ٹریننگ آرگنائزیشن اسکائی ونگز کے چیف آپریٹنگ افسر عمران اسلم کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ''پاکستان ہرگز فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اور دہشت گردی کے مسائل والا ملک نہیں ہے بلکہ یہ مواقع سے بھرپور ایک متنوع ملک ہے۔‘‘
وہ دیگر طیارے بھی پینٹ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں تاکہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ یہ ٹرک آرٹ حالیہ چند برسوں میں پاکستان کا بہترین ثقافتی ورثہ بن کر برآمد ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر عالمی تنظیم یونیسکو ٹرک آرٹ کو خیبرپختونخوا میں بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
آرٹسٹ اور پینٹر حیدر علی کا اس موقع پر کہنا تھا، '' دنیا ہماری ٹرک آرٹ پریزنٹیشن سے واقف ہے۔ اب اس طیارے کی وجہ سے ہمارے رنگ آسمان میں اڑیں گے۔ ہم واقعی بہت خوش ہیں۔‘‘ چالیس سالہ حیدر علی نے ٹرک آرٹ کا کام اپنے والد سے سیکھا تھا اور اب ان کا شمار اس فیلڈ کے مشہور ترین کاریگروں میں ہوتا ہے۔
حیدر علی کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں اسی طرح ایئربس یا پھر بوئنگ طیارےکو بھی پاکستانی ٹرک آرٹ سے سجانے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس طرح ان کا تجربہ مزید وسعت اختیار کر جائے گا۔
ا ا / ع ح ( روئٹرز)
پاکستانی ٹرک آرٹ، جرمن بھی دیوانے
دنیا بھر اور پاکستان میں پاکستانی ٹرک آرٹ کی ترویج کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’پھول پتی‘ کی ٹیم ان دنوں جرمنی میں ہے۔ دارالحکومت برلن میں ان آرٹسٹوں کا کام ایسا تھا کہ جرمن بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
تصویر: Ali Salman Anchan
پاکستانی ٹرک آرٹ کو شاید پاکستانی ثقافتی حلقوں میں تو اتنی پذیرائی نہیں ملی، جتنی بیرون ملک مل رہی ہے۔ اس آرٹ کو بیرون ملک متعارف کروانے میں ’پھول پتی‘ تنظیم کا کردار اہم ہے۔ پھول پتی کی ٹیم اپنے فاؤنڈر اور تخلیقی شعبے کے ڈائریکٹر علی سلمان آنچن کے ہمراہ جرمنی کے مختلف شہروں میں اس آرٹ کی نمائش کر رہی ہے۔
تصویر: Ali Salman Anchan
علی سلمان آنچن کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستانی ٹرک آرٹ وہ واحد شعبہ ہے، جس کا برصغیر اور دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ پاکستانی ٹیم نے تاریخی دیوار برلن کی اوپن ایسٹ سائیڈ گیلری میں اپنے فن پارے پیش کیے۔
تصویر: Ali Salman Anchan
اس موقع پر پاکستانی ٹرک آرٹ میں برلن کی سیر کو گئے ہوئے سیاحوں اور خود جرمنوں کی دلچسپی قابل دید تھی۔ بہت سے جرمن نوجوانوں نے یہ آرٹ سیکھنے میں دلچسپی ظاہر کی جبکہ کئی مردوں اور خواتین نے اپنی مختلف اشیاء پر نقش و نگار بنوائے اور پاکستانی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔
تصویر: Ali Salman Anchan
جرمنی میں ’پھول پتی‘ کی ٹیم مقامی پاکستانیوں اور برلن میں اس منصوبے کے آرگنائزر اور سماجی کارکن راشد ملک کی دعوت پر آئی ہے۔ تاہم پاکستانی سفارت خانے اور کراچی میں موجود جرمن قونصلیٹ نے بھی اس منصوبے میں بھرپور تعاون فراہم کیا ہے۔
تصویر: Ali Salman Anchan
اس کار کو دیکھتے ہوئے ایک جرمن لڑکے کا خوشی سے کہنا تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اس طرح کسی کار پر رنگ برنگے پھول بنتے ہوئے دیکھے ہیں، ’’یہ میرے لیے حیران کن ہے کہ کیسے مہارت سے نقش ونگار بنائے جا رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Ali Salman Anchan
ایک جرمن لڑکی کا کہنا تھا کہ اسے پہلی مرتبہ پتہ چلا ہے کہ پاکستان کا آرٹ اس قدر خوبصورت ہے، ’’اب میرے دل میں شوق پیدا ہو رہا ہے کہ میں پاکستان جاؤں۔‘‘
تصویر: Ali Salman Anchan
پاکستانی ٹرک آرٹ کو دیکھتے ہوئے بہت سے جرمنوں کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی سیر کرنا چاہتے ہیں اور بہت سے آرٹ گروپوں نے ’پھول پتی‘ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مشاورت کی ہے۔
تصویر: Ali Salman Anchan
برلن میں موجود ’پھول پتی‘ کی ٹیم کو مقامی پاکستانیوں نے بھی بہت سراہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے ایونٹس کا انعقاد ہوتے رہنا چاہیے تاکہ دنیا بھر کے لوگوں کو پاکستانی ثقافت کا بھی علم ہو۔
تصویر: Ali Salman Anchan
’پھول پتی‘ کے ڈائریکٹر اور ٹرک آرٹسٹ ممتاز، سینیئر آرٹسٹ اقبال اور علی سلمان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی پاکستان جیسا ’ٹرانسپورٹ آرٹ‘‘ موجود نہیں ہے۔ یہ گروپ پاکستانی آرٹ کو بعد ازاں یورپ کے دیگر ملکوں میں بھی لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تصویر: Ali Salman Anchan
’پھول پتی‘ تنظیم کا پاکستان میں اس منصوبے کے آغاز کا مقصد اس آرٹ کی ترویج اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ ٹرک آرٹ کو اردو میں ’پھول پتی‘ جبکہ پنجابی میں ’پھول بوٹی‘ کہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تنظیم متعدد دیواروں کو اپنے نقش و نگار سے خوبصورت بنا چکی ہے۔
تصویر: Ali Salman Anchan
’پھول پتی‘ تنظیم امریکا، کینیڈا، ترکی اور بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی ٹرک آرٹ کو پیش کر چکی ہے جبکہ اس کے متعدد منصوبے ابھی پائپ لائن میں ہیں۔