مصری اٹارنی جنرل بم دھماکے میں ہلاک
29 جون 2015مصری اٹارنی جنرل کو ایک ایسے موقع پر بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا ہے، جب کل 30 جون کو سابق صدر محمد مُرسی کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہونے والی تحریک کے دو برس مکمل ہو رہے ہیں۔ مصر کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق اٹارنی جنرل ہشام برکات کو لے جانے والے گاڑیوں کے قافلے کو قاہرہ کے شمالی علاقے میں دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے کے بعد کم از کم پانچ کاریں پوری طرح جل کر تباہ ہو گئیں۔ پولیس کے مطابق ہشام برکات کو گاڑی کے شیشے کے ٹکڑوں نے شدید زخمی کیا۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس بم دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں اور سویلین سمیت کم از کم نو افراد زخمی بھی ہوئے۔
مصری دارالحکومت قاہرہ میں قبل ازیں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جبکہ ہشام برکات اس طرح نشانہ بنائے جانے والی اہم ترین شخصیت ہیں۔ ایک سکیورٹی ذریعے نے مصر کے سرکاری اخبار egynews.net کو بتایا کہ ان کی کار کو ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔
’پاپولر ریزسٹنس‘ نے ذمہ داری قبول کر لی
ڈی پی اے کے مطابق ایک عسکریت پسند گروپ ’پاپولر ریزسٹنس‘ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ تاہم اس کی طرف سے کیے جانے والے اس دعوے کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
مصر میں کالعدم قرار دی جانے والی جماعت اخوان المسلمون سے قربت رکھنے والے اس گروپ سے قبل ازیں قاہرہ میں ہونے والے چھوٹے موٹے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی رہی ہے۔ مصری سکیورٹی فورسز دھماکے کی جگہ کی ناکہ بندی کر کے مزید دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کے امکان کا جائزہ لے رہی ہیں۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اٹارنی جنرل کی بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد ملکی وزیر داخلہ مجدی عبدالغفار کے ساتھ ایمرجنسی میٹنگ میں صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ستمبر 2013ء میں اس وقت کے وزیر داخلہ محمد ابراہیم کے قافلے کو بھی اسی طرح بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تھا تاہم وہ محفوظ رہے تھے۔
قاہرہ میں اگست 2013ء میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے اقتدار سے ہٹائے جانے والے سابق صدر محمد مُرسی کے حق میں مظاہرہ کرنے والے سینکڑوں افراد کو ہلاک کیے جانے کے بعد سے پولیس والوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں بڑی تعداد میں اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔