مصری حکمران جماعت کی اعلیٰ قیادت مستعفی، مظاہرے بدستور جاری
5 فروری 2011مصری صدر حسنی مبارک کی جماعت کے جن پارٹی عہدیداروں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے ان میں مبارک کے بیٹے جمال مبارک بھی شامل ہیں۔ آزادانہ ذرائع سے فی الحال ان خبروں کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
اس سے قبل مصری صدر حسنی مبارک نے مظاہروں سے نمٹنے کے لیے اپنی نومنتخب کابینہ کے ساتھ ایک اہم ملاقات کی۔ بتایا گیا ہے کہ اس ملاقات میں مصری صدر نے ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کی حکمت عملی پر غور کیا ہے۔
مصر میں حکومت مخالف مظاہرین مسلسل بارہویں دن بھی اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جمعہ کے دن ایک لاکھ سے زائد مظاہرین التحریر چوک پر اکٹھے ہوئے تھے، جن میں سے مظاہرین کی ایک بڑی تعداد اب بھی وہیں موجود ہے۔ دوسری طرف گزشتہ تین دہائیوں سے برسر اقتدار مصری صدر حسنی مبارک پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں۔
ملکی وزیر خزانہ سمیر رادوان نے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اتوار کو بینک دوبارہ کھول دیے جائیں گے۔ ملکی سٹاک مارکیٹ کو پیر سے کھولنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں کہا گیا کہ فی الحال سٹال مارکیٹ نہیں کھولی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق ان مظاہروں کے نتیجے میں مصر کو یومیہ تین سو دس ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
دوسری طرف امریکی صدر باراک اومابا نے اپنے مصری ہم منصب حسنی مبارک پر زور دیا ہے کہ وہ عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ’ٹھیک فیصلہ کریں‘۔ قاہرہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ امر واضح ہے کہ حسنی مبارک فوری طور پر اقتدار سے الگ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
اطلاعات کے مطابق نائب صدر عمر سلیمان نے اپوزیشن سے مذاکرات شروع کر دیے ہیں کہ انتقال اقتدار کا مرحلہ کس طرح شروع ہوگا۔ دوسری طرف اپوزیشن اخوان المسلمین نے کہا ہے کہ یہ مذاکرات اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں اگر صدر حسنی مبارک فوری طور پر اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق مصر میں ان مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے زائد ہو چکی ہے۔
اسی دوران ہفتے کی صبح ملک کے شمالی علاقے سینائی میں اس گیس پائپ لائن پردھماکہ ہوا، جو اسرائیل کو قدرتی گیس کی ترسیل کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ابتدائی طور پر کہا جا رہا تھا کہ نامعلوم افراد نے پائپ لائن پر حملہ کیا ہے تاہم بعد ازاں حکام نے تصدیق کی کہ یہ دھماکہ گیس لیکیج کی وجہ سے ہوا تھا، جس میں دہشت گردی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ حکام نے امدادی کارروائیاں شروع کرتے ہوئے اس پائپ لائن میں گیس کی ترسیل روک دی ہے۔ اس پائپ لائن کے ذریعے اسرائیل اور اردن کو قدرتی گیس سپلائی کی جاتی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف