1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری دستور میں ترامیم کا مرحلہ مکمل

عابد حسین3 دسمبر 2013

مُرسی حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری حکومت نے مصر کے دستور میں ترامیم کے لیے ایک کمیٹی کو تشکیل دیا گیا تھا۔ اِس کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ اب ترامیم شدہ دستور کے لیے ریفرنڈم کروایا جائے گا۔

تصویر: picture-alliance/dpa

تین جولائی کو محمد مُرسی کی حکومت کو فوج نے ختم کر کے ملکی عدلیہ کے سربراہ عدلی منصور کو عبوری صدر مقرر کر دیا تھا۔ مُرسی حکومت نے اپنے دور میں مصر کے لیے ایک نیا دستور ریفرنڈم کے ذریعے منظور کروایا تھا۔ موجودہ عبوری حکومت نے منظور شدہ دستور میں ترامیم کا اعلان کرتے ہوئے ایک پچاس رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اسلام پسند حکومت کے منظور شدہ دستور پر سیکولر اور لبرل حلقوں کو شدید تحفظات تھے۔ مرسی حکومت کے دستور کو دسمبر سن 2012 میں عوام کی 64 فیصد رائے سے منظور کیا گیا تھا۔

معزول صدر کے حامیوں نے ترمیم شدہ مسودہ آئین مسترد کر دیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

پچاس رکنی کمیٹی نے دستور پر نظرثانی کرتے ہوئے اِس میں کئی ترامیم کو شامل کیا ہے۔ اب اِس ترمیم شدہ دستور پر اگلے تیس ایام کے اندر اندر ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ دستور کے مجوزہ مسودے پر کمیٹی نے اپنا کام پیر کے روز مکمل کیا تھا۔ نظرثانی دستور میں مصر کے سب سے طاقتور ادارے فوج کے لیے خصوصی کردار تجویز کیا گیا ہے۔ دستوری کمیٹی نے اپنے مسودے پر کام مکمل کرنے کے بعد اِسے جمہوریت کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ بظاہر عبوری حکومت نے مرسی حکومت کے منظور شدہ دستور کی ہیت کو تبدیل کرنے کی جو کوشش کی ہے ، اُس کو بھی غالباً فوج کی پشت پناہی حاصل ہے۔

نئے دستور میں سیاسی حقوق کے لیے توانا لب و لہجہ استعمال کیا گیا ہے۔ اِن ترامیم کے حوالے سے سیاسی اور انسانی حقوق کے مبصرین کا خیال ہے کہ فوج کو جس طرح سے اختیار دیا گیا ہے، اس کی روشنی میں ایک فردِ واحد کو ملنے والا اختیار کا لہجہ بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ دستور میں شامل ایک ترمیم کے مطابق اگلی دو مدت صدارت کے دوران فوج کے پاس یہ اختیار رہے گا کہ وہ ملک کے وزیردفاع کا نام تجویز کرے گی۔ اس ترمیم سے مبصرین کا خیال ہے کہ صدر کے اختیار کو محدود کر دیا گیا ہے۔

مصر کی انقلابی سوشلسٹ تحریک کے سرکردہ رکن حسام الحملاوی کا کہنا ہے کہ نئی ترامیم سے ملک میں فوج کے لیے بڑا کردار متعین کر کے اُسے ملکی اقتدار کی سمت مقرر کرنے کے لیے غیر معمولی وقعت دی گئی ہے۔ مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے خلاف سن 2011 میں انقلابی سوشلسٹ تحریک نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ دوسری جانب معزول صدر محمد مرسی کی اخوان المسلمون نے ترامیم شدہ دستوری مسودے کو کُلی طور پر مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر مرسی حکومت کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

ایسے امکانات بھی ہیں کہ مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی اگلے صدارتی الیکشن کے مُمکنہ امیدوار ہو سکتے ہیںتصویر: Reuters

نئے دستور میں بھی شریعت کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مرسی حکومت نے دستوری مسائل میں جامعہ الازہر کو رہنمائی کا حتمی اختیار دیا تھا۔ ترمیم شدہ مسودے میں جامعہ الازہر کے اِس اختیار کو حذف کر دیا گیا ہے۔ نئے آئنی مسودے میں فرد واحد کے دین اور عقیدے کو خصوصی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ترمیمی مسودے میں پارلیمنٹ کو صدر ہٹانے کا بھی اختیار دیا گیا ہے۔ اب پارلیمنٹ صدر کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ منصب سے فارغ کر سکے گی۔ اسی طرح مصوروں، فنکاروں، ادیبوں کو بھی آزادی کے ساتھ اپنا کام کرنے کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔

نئے دستوری مسودے میں فوج کے استعمال میں لائے گئے ملکی سرمائے کو شفافت نہیں فراہم کی گئی اور اس طرح کئی صنعتی شعبوں میں اقتصادی قوت حاصل کرنے کے اختیار پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ مرسی حکومت کے دستور کی شق کہ کسی بھی عام شہری کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جا سکتا ہے کو حذف نہیں کیا گیا بلکہ اِس کو نئی شکل دے دی گئی ہے۔ اِس شق کے تحت امکاناً دس ہزار افراد کے مقدمات فوجی ٹریبیونل میں چلائے جا سکیں گے۔ ایسے امکانات بھی سامنے آئے ہیں کہ مصری فوج کے موجودہ سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی اگلے صدارتی الیکشن کے مُمکنہ امیدوار ہو سکتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں