1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری ریفرنڈم: عوام کی اکثریت اصلاحات کے حق میں

21 مارچ 2011

ہفتے کے روز مصر میں ہوئے ریفرنڈم کے نتائج سامنے آ گئے ہیں۔ سرکاری نتائج کے مطابق ستتّر فیصد عوام نے آئینی اصلاحات اور فوجی سے سویلین حکومت کی جانب پیش قدمی کی حمایت کی ہے۔

اٹھارہ اعشاریہ پانچ ملین افراد نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیاتصویر: AP

مصر کے چودہ ملین عوام نے فوجی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی آئینی اصلاحات کے حق میں ووٹ ڈالے، جن کے مطابق اگلے چھ ماہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔ ڈالے گئے ووٹوں میں سے صرف چار فیصد اصلاحات کی مخالفت میں تھے۔

نوبیل انعام یافتہ محمّد البرادعی بھی ووٹ ڈالنے پہنچےتصویر: AP

ہفتے کے روز ہوئے ریفرنڈم میں ملک کے پینتالیس فیصد اہل رائے دہندگان میں سے اکتالیس فیصد، یعنی اٹھارہ اعشاریہ پانچ ملین ووٹرز نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔ عوامی مظاہروں اور بغاوت کے نتیجے میں سابق صدر حسنی مبارک کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد عبوری فوجی حکومت کی جانب سے کرایا گیا یہ ملک گیر ریفرنڈم تھا۔

اس سال کے آغاز میں شروع ہوئے عوامی مظاہروں نے حسنی مبارک کے تیس سالہ اقتدار کا خاتمہ کردیاتصویر: picture-alliance/dpa

بعض افراد اور مبصرین کے مطابق فوجی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی اصلاحات ناکافی ہیں اور یہ کہ وہ مبارک حکومت کا تسلسل ہیں۔ بعض گروپس نے ریفرنڈم کی مخالفت کرنے کے لیے عوام کو سوشل نیٹورکنگ سائٹس کے ذریعے متحرک کرنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم ریفرنڈم کے نتائج آنے پر ان گروپس نے فراخ دلی سے اپنی شکست تسلیم کی ہے۔

عبوری حکومت کی جانب سے تجویز کردہ اصلاحات میں سے ایک میعادِ صدارت کو چار چار برس کے دو ادوار تک محدود کرنا ہے اور اس بات پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے کہ صدر کسی سویلین کا مقدمہ فوج کے حوالے کر سکیں۔

مصر کی مذہبی جماعتوں کی جانب سے ریفرنڈم کے نتائج پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے تاہم زیادہ تر نے نتائج کو تسلیم کیا ہے۔ امریکی حکومت نے مصری عوام کی جانب سے آئینی اصلاحات کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے۔ 

رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں