مصری ریفرنڈم: عوام کی اکثریت اصلاحات کے حق میں
21 مارچ 2011مصر کے چودہ ملین عوام نے فوجی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی آئینی اصلاحات کے حق میں ووٹ ڈالے، جن کے مطابق اگلے چھ ماہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔ ڈالے گئے ووٹوں میں سے صرف چار فیصد اصلاحات کی مخالفت میں تھے۔
ہفتے کے روز ہوئے ریفرنڈم میں ملک کے پینتالیس فیصد اہل رائے دہندگان میں سے اکتالیس فیصد، یعنی اٹھارہ اعشاریہ پانچ ملین ووٹرز نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔ عوامی مظاہروں اور بغاوت کے نتیجے میں سابق صدر حسنی مبارک کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد عبوری فوجی حکومت کی جانب سے کرایا گیا یہ ملک گیر ریفرنڈم تھا۔
بعض افراد اور مبصرین کے مطابق فوجی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی اصلاحات ناکافی ہیں اور یہ کہ وہ مبارک حکومت کا تسلسل ہیں۔ بعض گروپس نے ریفرنڈم کی مخالفت کرنے کے لیے عوام کو سوشل نیٹورکنگ سائٹس کے ذریعے متحرک کرنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم ریفرنڈم کے نتائج آنے پر ان گروپس نے فراخ دلی سے اپنی شکست تسلیم کی ہے۔
عبوری حکومت کی جانب سے تجویز کردہ اصلاحات میں سے ایک میعادِ صدارت کو چار چار برس کے دو ادوار تک محدود کرنا ہے اور اس بات پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے کہ صدر کسی سویلین کا مقدمہ فوج کے حوالے کر سکیں۔
مصر کی مذہبی جماعتوں کی جانب سے ریفرنڈم کے نتائج پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے تاہم زیادہ تر نے نتائج کو تسلیم کیا ہے۔ امریکی حکومت نے مصری عوام کی جانب سے آئینی اصلاحات کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق