مصری صدر سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا، رجب طیب ایردوآن
24 فروری 2019
ترک صدر نے مصر میں دی جانے والی پھانسیوں پر مصری حکومت پر سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ مصری حکام نے ملکی مستغیث اعلیٰ کو بم حملے میں قتل کرنے کے جرم میں نو افراد کو موت کی سزا حال ہی میں دی گئی ہے۔
اشتہار
کالعدم اخوان المسلمون کے نو مبینہ کارکنوں کو پھانسی دینے پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے مصری ہم منصب پر شدید الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے تنقید کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایسے شخص کے ساتھ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایردوآن کے مطابق مصری حکومت نے نو نوجوانوں کو پھانسیاں دی ہیں اور یہ انتہائی افسوسناک ہے۔
ترک صدر نے سی این این ترک کو دیے گئے انٹرویو میں مزید کہا کہ جس انداز میں مصر میں پھانسی کی سزائیں دی جا رہی ہیں، وہ ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے یہی بتایا گیا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ تھا اور اُس پر عمل درآمد کیا گیا لیکن مصر میں عدالتی فیصلے ہوں یا انتخابات، سب بکواس ہیں۔ ایردوان کے مطابق مصر میں آمریت کا نظام رائج ہے، فرد واحد کی حکومت ہے، بلکہ مطلق العنانیت ہے۔
اس انٹرویو میں ترک صدر سے پوچھا گیا کہ وہ مصری صدر السیسی کے ساتھ بات چیت کیوں نہیں کرتے تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ثالثوں نے اس حوالے سے انہیں کئی مرتبہ مشورہ دیا ہے لیکن وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ السیسی سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
یاد رہے کہ مصری حکام نے بدھ بیس فروری کو سن 2015 میں ملکی چیف پراسیکیوٹر کو قتل کرنے کے جرم میں کالعدم سیاسی و مذہبی تنظیم اخوان المسلمون کے نو مشتبہ کارکنوں کو موت کی سزا دی تھی۔ ان افراد کی سزاؤں کی توثیق گزشتہ برس نومبر میں اعلیٰ ترین عدالت نے کر دی تھی۔ سزائے موت پانے والوں کی شناخت کے بارے میں مصری حکام نے کوئی تفصیل جاری نہیں کی تھی۔ ان مجرموں کو یہ سزائیں مصری چیف پراسیکیوٹر ہشام برکات کو ایک بم حملے کے ذریعے قتل کرنے کے جرم میں سنائی گئی تھیں۔ رواں برس کے دوران مصر میں اب تک پندرہ افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ سن 2013 کی فوجی بغاوت کے بعد مصر اور ترکی کے درمیان دو طرفہ تعلقات تقریباً ختم ہو کر رہے گئے ہیں۔ سن 2013 میں موجودہ مصری صدر اور اُس وقت کے فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی نے اسلام پسند صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ صدر مرسی کو ترک صدر ایردوآن کا قریبی حلیف خیال کیا جاتا تھا۔
مرسی کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن، سینکڑوں ہلاک
مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے اسلام پسند حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کی ہے، اخوان المسلمون کے مطابق ان کے سینکڑوں کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
مصر میں سکیورٹی فورسز اور سابق صدر محمد مُرسی کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 525 سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اس کے برعکس اخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کریک ڈاؤن کے دوران ان کے دو ہزار سے زائد حامی مارے گئے ہیں۔
تصویر: Mosaab El-Shamy/AFP/Getty Images
دریں اثناء ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے مصری سکیورٹی فورسز کی طرف سے اس کریک ڈاؤن کو ’قتل عام‘ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے فوری طور پر عملی ردعمل ظاہر کرنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: Reuters
محمد مرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمون نے کہا ہے کہ وہ فوجی بغاوت کے خاتمے تک اپنی پر امن جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے انہوں نے ہمیشہ عدم تشدد اور امن کی بات کی ہے۔
تصویر: Reuters
کریک ڈاؤن کے دوران احتجاجی کیمپ کے نزدیک واقع مسجد بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ دریں اثناء مصری فوج کے حمایت یافتہ عبوری وزیر اعظم نے معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کا دفاع کیا ہے۔
تصویر: Reuters
مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے اسلام پسند حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کی ہے۔ اخوان المسلمون کے مطابق ان کے سینکڑوں کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد مرسی کے حامی کئی ہفتوں سے دارالحکومت میں احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ معزول صدر کو بحال کیا جائے۔ قاہرہ کے شمال مشرق میں سب سے بڑے احتجاجی کیمپ میں مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق آج ملکی فوج تمام احتجاجی کیمپ ختم کروانے کی کوشش کرے گی۔ دوسری طرف مصر پولیس نے اخوان المسلمون کے اہم رہنما محمد البلتاجی کو گرفتار کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اخوان المسلمون کے کارکن پولیس کی کارروائی سے متاثر ہونے والی ایک خاتون کو پانی پلا رہے ہیں۔ اخوان المسلمون کے مطابق ہلاکتوں کے علاوہ پانچ ہزار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
احتجاجی کیمپوں کے خلاف عبوری حکومتی کارروائی کے آغاز کے بعد اخوان المسلمون کی جانب سے مصری عوام سے اپیل بھی کی گئی کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اخوان المسلمون کے ترجمان جہاد الحداد کا کہنا تھا کہ یہ احتجاجی کیمپوں کو منتشر کرنے کا عمل نہیں بلکہ فوجی بغاوت کے بعد اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی ایک خونی کارروائی ہے۔
تصویر: Reuters
رابعہ العدویہ مسجد کے قریب ایک مسجد کو مبینہ طور پر عارضی مردہ خانے کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس میں کُل 43 لاشیں پہنچائی گئی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام مرد تھے اور ان کو گولیاں لگی ہوئی تھیں۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
وزارت داخلہ کے مطابق النہضہ اسکوائر کا علاقہ اب مکمل طور پر احتجاجیوں سے خالی کرا لیا گیا ہے اور پوری طرح حکومتی سکیورٹی کے کنٹرول میں ہے۔ اس چوک میں نصب تمام خیمے بھی ہٹا دیے گئے ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق اس کیمپ سے درجنوں افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق علاقے کے مکینوں نے بھی سکیورٹی اہلکاروں کی معاونت کی ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
قاہرہ میں معزول صدر کے حامیوں نے دو احتجاجی کیمپ قائم کر رکھے تھے۔ ان میں سے ایک قاہرہ یونیورسٹی کے باہر تھا جو قدرے چھوٹا اور اپنے حجم کے اعتبار سے بڑا کیمپ رابعہ العدویہ مسجد کے باہر تھا۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
سکیورٹی آپریشن کے شروع ہونے پر فوج نے سینکڑوں ریت کے تھیلوں کو بھاری ٹرکوں پر لاد دیا تھا۔ اس کے علاوہ مظاہرین کی جانب سے تیار کردہ اینٹوں کی حفاظتی دیواروں کو بھی توڑ دیا۔ اس کام کے لیے فوج نے بلڈوزر کا استعمال کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپی یونین سمیت، ترکی، ایران، قطر اور برطانیہ نے احتجاجی کیمپوں پر سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن اور ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
فوج کی مدد سے پولیس نے اس آپریشن کا آغاز بدھ کی صبح کیا۔ اگلے تین گھنٹوں کی بھرپور کارروائی کے بعد دونوں کیمپوں کو تقریباً خالی کرا لیا گیا اور احتجاجی مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا۔