1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخمصر

مصری کسانوں کی زندگی کا تاریخی تجزیہ

2 اپریل 2022

مصر کے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگرچہ انہوں نے اپنا مذہب اور زبان تو بدل لی مگر اپنی روایات اور رواج کو نہ بدلا۔ ڈاکٹر مبارک علی کا بلاگ

مصنف: ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

ہیروڈوٹس Herodotus (d.425BC) نے مصر کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دریائے نیل کا تحفہ ہے۔ دریائے نیل کے سالانہ سیلاب کے بعد جب پانی واپس چلا جاتا تھا تو اپنے پیچھے زرخیز مٹی چھوڑ جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے کسانوں کو کاشت کاری میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی۔ جب فصلیں تیار ہو جاتی تھیں جو ریاست کے کارکن آکر پیداوار کا جائزہ لیتے تھے اور لگان کی شرح مقرر کرتے تھے۔ اس شرح کے مطابق کسان اناج کا بڑا حصہ سرکاری دفتر میں جمع کروا دیتے تھے۔ کسانوں کی محنت کی اس زرعی آمدنی پر مصر کی حکومت کا کاروبار چلتا تھا حکمرانوں کے لیے محلات اور اہرام بنائے جاتے تھے۔ دیوتائوں کے لیے مندر اور سرکاری عہدیداروں کی تنخواہیں اس کے علاوہ کسانوں سے بیگار میں عمارتیں تیار کرائی جاتی تھیں۔ ہیروڈوٹس کے مطابق ان مزدور کسانوں کو کھانے میں روٹی، پیاز اور پینے کے لیے بیئر دی جای تھی۔ جب فرعون کسی دوسرے ملک پر حملہ کرتا تھا تو کسانوں کو زبردستی فوج میں شامل کیا جاتا تھا۔ مصر کے لوگ کسی دوسرے ملک میں مستقل رہائش اختیار نہیں کرتے تھے اور اپنی ہی سرزمین پر دفن ہونا چاہتے تھے۔ اس لیے فوجیں فتح کے بعد واپس آجاتی تھیں۔ مصر پر غیر ملکی حملہ آور بھی ہوئے جن میں ہائک سوس (Hyk Sos) جو اپنے ساتھ گھوڑا لے کر آئے تھے اور زیریں مصر پر قابض بھی رہے تھے۔ ان کے بعد حملہ آوروں میں ایرانی، یونانی، رومی، عرب، ترک اور یورپی اقوام تھیں۔

مصر کے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگرچہ انہوں نے اپنا مذہب اور زبان تو بدل لی مگر اپنی روایات اور رواج کو نہ بدلا۔ اہل یورپ مصر کی پرانی تہذیب سے اس وقت آگاہ ہوئے جب 1798ء میں نیپولین نے مصر پر حملہ کرکے اس کی قدیم تہذیب پر تحقیق کرائی۔

مصر کو جدید بنانے کا عمل محمد علی پاشا Muhammad Ali Pasha (r.1805-1848) کے دور میں ہوا لیکن شہر اور دیہات کے کلچر میں فرق رہا۔ اس کے بعد جب اس کا بیٹا اسماعیل پاشا مصر کا خدیو ہوا تو سب سے پہلے اس نے مصر کی ہزاروں ایکڑ اراضی کو اپنی جائیداد میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد اپنے رشتہ داروں مصاحبوں اور ذاتی ملازموں کو فیاضی کے ساتھ زرعی جاگیریں الاٹ کیں۔ اس کے نتیجے میں مصر کے کسان اپنی زمینوں سے محروم ہو گئے اور جاگیرداروں کے ملازم ہو کر ان کے لیے محنت و مزدوری کرنے لگے۔ اس کے دو نتائج نکلے کیونکہ کسانوں کو اپنی محنت کا معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ اس لیے کھیتی باڑی میں ان کی زیادہ دلچسپی نہیں تھی، جس کی وجہ سے جاگیرداروں کے مظالم ان پر اور ان کے خاندانوں پر بڑھ گئے اور سخت سزائیں دینے کا رواج ہو گیا، کیونکہ کسانوں کی کوئی آواز نہ تھی اس لیے وہ انصاف سے محروم رہے۔ اس کا دوسرا اثر یہ ہوا کہ ان مظالم سے تنگ آکر کسانوں نے اپنا گھر بار اور گائوں چھوڑ دیا اورجلاوطنی اختیار کر لی جس کی وجہ سے غذائی پیداوار میں بحرانی کیفیت آئی۔ ایک طرف جہاں کسانوں کی مفلسی اور غربت تھی اوردوسری جانب اسماعیل پاشا قاہرہ شہر کو جدید بنانے میں مصروف تھا۔ ایڈورڈ سعید (d.2003) نے کلچر اینڈ ایمپریل ازم میں تفصیل سے لکھا ہے کہ اسماعیل پاشا نے ایک نئے قاہرہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ جہاں کشادہ سڑکیں تھیں، رات میں روشنی کا انتظام تھا۔ تھیٹر اور Opera ہاؤس کی عمارتیں بنوائیں یہاں مشہور یورپی فنکار آکر بڑے معاوضوں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ جدیدیت کی یہ روشنی اور خوشحالی قاہرہ کے محدود علاقے تک رہی جبکہ عوام کی اکثریت اس سے محروم رہی۔

Timoth Mitcheu نے اپنی کتاب "Expertise" میں اس طبقاتی نظام کا تجزیہ کیا ہے۔ مثلاً جب دوسری جنگ عظیم دوران ملیریا کے مچھر نے ایک وبائی شکل اختیار کر لی تو اس موقع پر شاہی خاندان اور اشرافیہ کی خواتین نے اپنی رحم دلی کا اظہار کرتے ہوئے بھولے اور غریب لوگوں کے کھانے کا انتظام اپنے محلوں میں کیا جہاں ایک نوجوان صحافی بھی شریک تھا بعد میں اس نے اپنی ایک رپورٹ میں بھی لکھا کہ ملیریا کے مچھروں سے زیادہ یہ خواتین غریب لوگوں کی دشمن تھیں کہ جنہوں نے خون نچوڑ کر اپنے کیک، کھانوں اور شرابوں میں شامل کیا۔ اس لیے ان سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

یورپ کے دانشوروں نے کسانوں کی زندگی کی طرف اس وقت توجہ دی جب 1930ء کی دہائی میں برما، انڈو چائنہ اور مصر میں یورپی کالونیل طاقتوں کے خلاف بغاوتیں ہوئیں۔ لہٰذا کولونیل حکومتوں کی جانب سے محققین کو کہا گیا کہ وہ ان اسباب اور وجوہات کو تلاش کریں جن کی وجہ سے یہ بغاوتیں ہو رہی تھیں۔ ویتنام کے بارے میں تحقیق کے ذریعے یہ وضاحت کی گئی کہ اس کے عوام میں اپنے وطن سے محبت کے شدید جذبات ہیں اور وہ کولونیل اقتدار کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مصر کے سلسلے میں بھی یہ تحقیقات ہوتیں، لیکن جب بھی مغربی اور امریکی اہل علم مشرقی ممالک کا تجزیہ کرتے ہیں تو ان کا مقابلہ اپنے حالات سے کرتے ہوئے انہیں پسماندہ اور تہذیب سے گرا ہوا قرار دے کر ترقی یافتہ اور مہذب سمجھتے ہیں۔ ان کی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مشرقی اقوام روایت پسند ہیں اور تبدیلی کے سخت مخالف ہیں، چنانچہ مصر کے بارے میں جو تحقیق کی گئی اس میں مصر کے کسانوں کے بارے میں اس امر کا اظہار کیا گیا کہ اگر ان کے گاؤں اور دیہاتوں کو دیکھا جائے تو یہ بے انتہا بے ہنگم ہوتے ہیں، ایک مکان سے دوسرا جوڑا ہوتا ہے اور ایک ہی مکان میں پورا خاندان مل جل کر رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان میں انفرادیت نہیں ہوتی ہے وہ جو کچھ کرتے ہیں ان کے خاندان اور دیہات والوں کی رائے شامل ہوتی ہے، اگر وہ سفر کرتے ہیں تو مجمعے کی شکل میں، انفرادیت نہ ہونے کی وجہ سے روایت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصر کے کسان چھ ہزار برس سے بغیر کسی تبدیلی کے ایک ہی حالت میں رہ رہے ہیں۔ یہ نقطہ نظر کے مصر کے کسان کسی تبدیلی کے خواہش مند نہیں۔ کلونیل پاور کو یہ اختیار دیتا تھا کہ وہ ان کی زندگی کو تبدیل کریں۔ انہیں جدیدیت سے روشناس کرائیں تاکہ وہ فعال اور متحرک ہو کر پیداواری عمل میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں سکیں۔

مصر کے سیاسی حالات میں اس وقت تبدیلی آئی جب مصر سے بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور انگریزی اقتدار کے خلاف قوم پرستی کی تحریک شروع ہوئی، لیکن اس قوم پرستی میں اشرافیہ غالب تھی جبکہ کسانوں کو اس سے خارج کر دیا گیا تھا، لیکن جب 1952ء میں جنرل نجیب اور جمال عبدالناصر نے فوجی طاقت کے ذریعے حکومت پر قبضہ کیا تو اس نے مصر کے سیاسی اور سماجی حالات پر گہرا اثر ڈالا۔ اس نے فیوڈل ازم کا خاتمہ کیا۔ نہر سویز کو قومیانہ اور عام لوگوں کے لیے تعلیم کی سہولتیں فراہم کیں۔ مصری قوم پرستی کی جگہ اس نے عرب قوم پرستی کو فروغ دیا۔ اس نے روس سے اپنے روابط بڑھائے اور امریکی اثرات کا خاتمہ کیا، لیکن 1970ء میں اس کی وفات کے بعد اس کی جانشین سادات نے اس کی اصلاحات کو الٹ دیا اور امریکہ کے حلقہ اکثر میں جاکر مصر کو ایک بارپھر فوجی آمروں کے تسلط میں دے دیا۔ جس کی وجہ سے کسانوں کی بہتر ہوتی ہوئی حالت دوبارہ سے بگڑتی چلی گئی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں