مصر: السیسی کے اختیارات اور اقتدار میں توسیع کے لیے ریفرنڈم
20 اپریل 2019
مصری عوام ملکی صدر عبدالفتاح السیسی کی مدت صدارت میں توسیع کے بارے میں ریفرنڈم میں آج سے اپنی رائے دے رہے ہیں۔ عوامی تائید حاصل ہونے کی صورت میں صدر السیسی سن 2030 تک اقتدار میں رہ سکیں گے۔
اشتہار
مصری صدر السیسی ریفرنڈم کے ذریعے ملکی آئین میں مجوزہ ترامیم کے بارے میں عوامی تائید حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ان تبدیلیوں کے ذریعے نہ صرف السیسی زیادہ بااختیار ہو جائیں گے بلکہ وہ ممکنہ طور پر سن 2030 تک اقتدار میں بھی رہ سکیں گے۔ مصری پارلیمان میں السیسی کے حامیوں کو اکثریت حاصل ہے اور پارلیمان پہلے ہی ان مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری دے چکی ہے۔
پارلیمان سے منظوری کے بعد مصری عوام اس ریفرنڈم کے لیے آج بیس اپریل بروز ہفتے سے لے کر کُل تین روز تک اپنا ووٹ دیں گے۔ سرکاری ٹی وی کی رپورٹوں کے مطابق صدر السیسی ووٹنگ کا عمل شروع ہونے کے چند ہی منٹ بعد اپنا ووٹ ڈالنے ایک پولنگ اسٹیشن پر پہنچ گئے تھے۔ سرکاری میڈیا پر بھی لوگوں کو ’ذمہ داری کا مظاہرہ‘ کرنے اور ’رائے دہی میں حصہ لینے‘ کے لیے بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔
سن 2014 کے آئین میں جن مجوزہ ترامیم کے لیے ریفرنڈم منعقد کرایا جا رہا ہے، ان تبدیلیوں کے تحت صدر السیسی کے عہدے کی موجودہ مدت چار سال سے بڑھا کر چھ برس کر دینا اور انہیں تیسری مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔ اس صورت میں السیسی ممکنہ طور پر سن 2030 تک اقتدار میں رہ پائیں گے۔ علاوہ ازیں ریفرنڈم میں عوامی تائید حاصل ہونے کی صورت میں مصری صدر کو ملک کی اعلیٰ عدالت کے ججوں کی تعیناتی کا اختیار بھی حاصل ہو جائے گا۔ سیاست میں فوج کے زیادہ کردار کے بارے میں بھی ایک تجویز ان آئینی ترامیم میں شامل ہے۔
صدر السیسی اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ مجوزہ آئینی ترامیم دیرپا ملکی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔
دوسری جانب ملکی اپوزیشن جماعتوں نے عوام سے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان آئینی تبدیلیوں کے ذریعے صدر السیسی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور انہیں ججوں کی تعیناتی کا اختیار دینا عدلیہ کی آزادی کے منافی ہو گا۔
مصری فوج نے سن 2013 میں صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے ایک برس بعد السیسی نے سن 2014 میں صدارتی عہدہ سنبھال لیا تھا۔
ش ح / م م (ڈی پی اے، اے پی)
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔