مصر اور ترکی میں ایک دہائی بعد مکمل سفارتی روابط بحال
5 جولائی 2023
دونوں ممالک کے درمیان اختلافات اس وقت شروع ہوئے، جب سن 2013 میں انقرہ نے مصر کے معزول صدر محمد مرسی کی حمایت شروع کی۔ اس کے رد عمل میں قاہرہ نے ترکی کے سفیر کو ملک بدر کر دیا تھا۔
اشتہار
مصر اور ترکی نے چار جولائی منگل کے روز اپنے سفارتی تعلقات کو اس وقت بہتر کیا، جب ایک دہائی بعد دونوں نے پہلی بار اپنے نئے سفیروں کی تعیناتی کا اعلان کیا۔
اس حوالے سے ایک مشترکہ بیان میں انقرہ اور قاہرہ نے کہا کہ اس فیصلے کا مقصد ''دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات کو بحال کرنا ہے اور یہ قدم مصری اور ترک عوام کے مفاد کے لیے اپنے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے پر کام کرنے کے ان کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔''
ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے ایک نیوز کانفرنس میں اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ''اب سے سیاسی، اقتصادی اور دیگر تمام شعبوں میں ہمارے تعلقات تیزی سے بہتر ہوتے رہیں گے۔ یہی ہمارے صدر (رجب طیب ایردوآن) اور حکومت کی خواہش ہے۔''
دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات جولائی 2013 میں اس وقت بری طرح خراب ہونا شروع ہوئے جب مصر کے فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے ملک کے منتخب، اسلام پسند صدر محمد مرسی کو ان کے ایک سالہ اقتدار کے بعد، معزول کر دیا اور ملک کی قیادت خود سنبھال لی تھی۔
ترکی نے اس وقت جمہوری طور پر منتخب صدر مرسی اور ان کی جماعت اخوان المسلمون کی حمایت کی تھی۔ تاہم قاہرہ کی موجودہ حکومت اسے ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتا ہے۔ اسی وجہ سے مصر نے ترک سفیر کو ملک بدر کر دیا تھا اور سفارتی تعلقات ناظم الامور کی سطح تک ہی محدود ہو گئے تھے۔
واضح رہے کہ سیسی اس واقعے کے ایک برس بعد صدر منتخب ہوئے اور تب سے وہی اس عہدے پر فائز ہیں۔
مصر اور ترکی میں لیبیا کے حوالے سے بھی اختلافات ہیں اور دونوں حریف فریقین کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ لیبیا مغرب میں مصر کا ہمسایہ ملک ہے۔ سن 2020 میں ترکی نے طرابلس میں قائم حکومت کے ساتھ لڑنے کے لیے لیبیا میں کرائے کے جنگجو تعینات کر دیے تھے، جس سے دونوں ممالک ایک پراکسی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
لیکن پھر سن 2021 میں کشیدگی میں کمی آئی اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بات چیت دوبارہ شروع کی گئی۔ اسی برس مصر نے قطر کے ساتھ بھی تعلقات درست کیے۔ واضح رہے کہ قطر نے بھی محمد مرسی اور ان کی جماعت اخوان المسلمین کی حمایت کی تھی۔
قطر میں سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے دوران سیسی اور ترک صدر ایردوآن کو مصافحہ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا، جو دونوں میں مسائل حل ہونے کی ایک علامت تھی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔