مصر: حالات خراب تر ہونے کا ڈر
24 جولائی 2013آج علی الصبح سکیورٹی حکام نے بتایا کہ اب اس طرح کے واقعات بد امنی کی زَد میں آئے ہوئے اب تک کے علاقوں کی بجائے نئے مقامات پر ہونے لگے ہیں اور یہ خدشات تقویت پکڑتے جا رہے ہیں کہ ہنگاموں کا سلسلہ پھیلتا چلا چلا جائے گا۔
رواں ہفتے پیر سے لے کر اب تک معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں میں گیارہ افراد مارے جا چکےہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں مرسی کے حامی ایک احتجاجی کیمپ کے قریب طلوعِ آفتاب سے پہلے سڑکوں پر ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں ہوئیں۔
آج بدھ کو مرسی کے حامی ایک گروپ نے دعویٰ کیا کہ دارالحکومت قاہرہ میں اُن کے جلوس میں شریک دو مزید ارکان اُن حملہ آوروں کی گولیوں کا شکار ہو کر جان گنوا بیٹھے، جو چھتوں پر بیٹھ کر فائرنگ کر رہے تھے۔
روز روز کی اس خونریزی کے نتیجے میں مرسی کے حامیوں اور فوج کی پشت پناہی سے سرگرم عمل انتظامیہ کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے اور مفاہمت کے امکانات معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
مصری پولیس گزشتہ کئی برسوں کے دوران اپنی بے رحمانہ کارروائیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے عوامی نفرت کا نشانہ بن رہی ہے جبکہ مرسی کی معزولی کے بعد سے جزیرہ نما سینا میں اب تک کے شدید ترین حملوں میں ایک درجن سے زیادہ سکیورٹی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔
آج بدھ کو ایک صوبائی دارالحکومت منصورہ میں ہونے والا بم حملہ یہ واضح کرتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں جزیرہ نما سینا سے نکل کر اب ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیل رہی ہیں۔ آج کے حملے میں جو اُنیس افراد زخمی ہوئے ہیں، اُن میں بھی چھ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ تیرہ پولیس اہلکار شامل ہیں۔ جب نصف شب کے تھوڑی ہی دیر بعد یہ حملہ ہوا، اُس وقت سڑکوں پر ماہِ رمضان کی وجہ سے بہت رَش تھا۔
صدارتی ترجمان احمد المسلمانی نے ایک بیان میں اس واقعے کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’منصورہ کا دہشت گردانہ حملہ مصر کے عزم صمیم کو متزلزل نہیں کر سکے گا، مصر نے پہلے بھی دہشت گردی کے مقابلے پر فتنح حاصل کی ہے اور آج بھی کرے گا‘۔
اُدھر مرسی کے حامیوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے اور اپنا پُر امن احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ مرسی کو اُن کی معزولی کے بعد سے کسی نامعلوم مقام پر نظر بند رکھا جا رہا ہے۔ ایک منتخب صدر کے ساتھ اِس سلوک پر اُن کے حامی سیخ پا ہیں اور صدارت کے عہدے پر اُن کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تین جولائی کو شروع ہونے والے بحران کے بعد سے اب تک کم از کم چھ صوبوں میں کم از کم چھ مسیحی باشندے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپوں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنشینل نے مصری حکام پر ان مسیحیوں کے قتل کی تحقیقات کرنے کے لیے زور دیا ہے۔