مصر: شريعت کا کوئی متبادل تسليم نہيں کريں گے، اخوان المسلمون
16 مئی 2012![](https://static.dw.com/image/15915614_800.webp)
مصر ميں سابق صدر حسنی مبارک کا تختہ گرانے کے بعد اعتدال پسند رويہ اختيار کرنے والی جماعت اخوان المسلمون نے حاليہ دنوں ميں سخت گير رويہ اختيار کرتے ہوئے واضح الفاظ ميں يہ کہنا شروع کر ديا ہے کہ وہ ملک ميں مکمل اسلامی نظام لائے گی۔ اخوان المسلمون کے صدارتی اميدوار محمد مُرسی نے ملکی دارالحکومت قاہرہ کی ايک يونيورسٹی ميں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’ہم شريعت کا کوئی متبادل تسليم نہيں کريں گے۔ قرآن ہمارا آئين ہے اور ہميشہ رہے گا‘۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اخوان المسلمون نے گزشتہ سال اپنی انتخابی مہم کے دوران يہ کہا تھا کہ ملک ميں اسلامی نظام کا نفاذ اس وقت ان کی ترجيحات ميں شامل نہيں۔ البتہ اليکشن سے چند ہی روز قبل اس تبديلی نے کئی سياسی تجزيہ نگاروں کو حيرانی ميں ڈال ديا ہے۔ تجزيہ کاروں کا کہنا ہے کہ يہ رويہ اس جماعت کے اصل نظريات کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے مطابق دراصل اخوان المسلمون سخت گير اسلامی نظريات کی نمائندہ تھی ليکن گزشتہ سالوں ميں اعتدال پسند رہنماؤں نے اس جماعت کی سربراہی پوزيشنيں پر کر ليں اور يہی وجہ ہے کہ پارٹی بظاہر ايک اعتدال پسند جماعت نظر آنے لگی۔
دوسری جانب جماعت کے کچھ سابق ممبران کا يہ بھی کہنا ہے کہ حاليہ دنوں ميں سخت گير اسلام پسند رويہ اختيار کرنے کی وجہ يہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارٹی کا طاقت حاصل کرنے کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہيں دے رہا۔ خبر ايجنسی کے مطابق گرچہ پارليمانی انتخابات ميں قانون سازی کے حوالے سے اخوان المسلمون سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تاہم ملک ميں اصل طاقت اب بھی فوج کے ہاتھوں ميں ہے۔
گزشتہ اتوار کو اخوان المسلمون کے پارليمانی ممبران نے اس وقت ايک تنازعہ کھڑا کر ديا جب انہوں نے عالمی بينک کے اس قرض کی مخالفت کی جس کی مدد سے مصر ميں نکاسی کے نظام کو بہتر بنايا جانا تھا۔ جماعت نے مخالفت کی وجہ يہ بتائی کہ اس قرض ميں سود کا عمل دخل تھا۔
گزشتہ دنوں ميں کئی ايسے واقعات منظر عام پر آئے ہيں جن کے ذريعے جماعت کا سخت گير رويہ ظاہر ہوتا ہے۔ مصر ميں اس وقت اخوان المسلمون کی جانب سے اس رويے نے اپنی جماعت ميں شامل اعتدال پسندوں کو تنہا کھڑا کر ديا ہے۔
as/al/AP