مصر کے جنوبی علاقے میں ایک قدیمی قبرستان کی باقیات برآمد ہوئی ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ اس دریافت سے قدیمی مصری تہذیب کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں گی۔
اشتہار
خبررساں ادارے ڈی پی اے نے مصری وزیر برائے عہد قدیم خالد العینی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ماہرین آثار قدیمہ کو جنوبی شہر المینا میں ایک قدیمی قبرستان کی باقیات ملی ہیں۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وسیع وعریض رقبے پر پھیلے ہوئے اس قبرستان سے سونے کا ایک تاج، چالیس تابوت اور ایک ہزار کے قریب مجسموں کے علاوہ برتن، زیورات اور دیگر اہم سازوسامان کے حصے بھی ملے ہیں۔
’مکلی کے قبرستان کو ثقافتی ورثے سے نکالے جانے کا خطرہ موجود‘
04:24
بتایا گیا ہے کہ یہ قدیمی قبرستان تونہ الجبل سے چار کلومیٹر دور شمال میں واقع ہے۔ العینی کے بقول، ’’یہ دریافت صرف ایک شروعات ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اس قبرستان میں موجود اشیا کو نکالنے اور ان کے تجزیے کے لیے پانچ سال درکار ہوں گے۔‘‘
المنیا میں اس قبرستان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے العینی نے مزید بتایا کہ اس مقام پر سن دو ہزار سترہ میں کھدائی کا کام شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے میں جرمن شہروں میونخ اور ہلڈس ہائم کے ماہرین آثار قدیمہ کے علاوہ مصری ماہرین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دریافت انتہائی اہم ہے اور اس سے مصری تہذیب کے کئی ایسے پہلو اجاگر ہوں گے، جو غالبا ابھی تک معلوم نہیں ہیں۔
حالیہ کچھ مہینوں کے دوران مصر میں ایسے کئی اہم قدیمی مقامات کی دریافت ہوئی ہے۔ ان میں جنوبی شہر الاقصر میں ملنے والے مقبرے بھی شامل ہیں۔ اسی ماہ کے آغاز پر ماہرین آثار قدیمہ نے چار ہزار چار سو سال پرانے ایک مقبرے کی دریافت بھی کی تھی۔
دارالحکومت قاہرہ کے جنوب میں واقع گیزا کے معروف اہرام کے قریب ہی ملنے والا یہ مقبرہ فرعون دور کی ایک راہبہ کا تھا۔ مصری وزیر برائے آثار کے مطابق ’ہیت پت‘ نامی اس خاتون کا تعلق فراعین کے خاندان کی پانچویں نسل سے تھا۔
مصری حکومت انہی اہرام کے قریب ایک اہم میوزیم بھی تعمیر کر رہی ہے، جو رواں برس کے اختتام تک لوگوں کے لیے جزوی طور پر کھول دیا جائے گا۔ مصری معیشت کا بڑا حصہ سیاحت پر انحصار کرتا ہے، اس لیے قاہرہ حکومت کی کوشش ہے کہ اس صنعت کو زیادہ بہتر بنایا جائے۔
سن دو ہزار گیارہ میں عرب اسپرنگ کے نتیجے میں صدر حسنی مبارک کی معزولی کے بعد اس شمالی افریقی ملک میں بدامنی پھیل گئی تھی، جس کے نتیجے میں مصر میں سیاحت کو بھی نقصان ہوا تھا۔ تاہم اب مصر کے حالات میں بہتری کے نتیجے میں غیر ملکی سیاح ایک مرتبہ پھر وہاں کا رخ کرنے لگے ہیں۔
صحراؤں میں سے راستہ بناتا دریائے نیل
گوئٹے انسٹیٹیوٹ سوڈان کی تیار کردہ ایک نمائش آج کل جرمن شہر ڈاساؤ کے وفاقی دفتر ماحولیات میں دکھائی جا رہی ہے۔ تین ابھرتے ہوئے فوٹوگرافرز نے کیمرے سے اتری ہوئی اپنی ان تصاویر میں نیل کے ساتھ ساتھ آباد بستیاں دکھائی ہیں۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
’رشید‘ نامی شہر میں آباد ایک خاندان
یہ فوٹوگرافرز سیاسی تنازعات کی نہیں بلکہ عام انسانوں کی روزمرہ زندگی کی تصویر کشی کرنا چاہتے تھے۔ محمود یاقوت نے ’رشید‘ میں بسنے والے انسانوں کو موضوع بنایا ہے، جہاں زیادہ تر خاندان زراعت پیشہ ہیں۔ نیل ڈیلٹا کی زرخیز زمینیں ان انسانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں۔
تصویر: Mahmoud Yakut
نیل پر مچھلی کے فارم
مصری شہر ’رشید‘ کے پاس دنیا کا یہ طویل ترین دریا بحیرہٴ روم میں جا کر گرتا ہے۔ اس علاقے میں بہت سے انسانوں کا روزگار ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ لکڑی سے بنائے گئے فِش فارم پانی پر تیرتے دکھائی دیتے ہیں، جن پر چھوٹی چھوٹی جھگیاں بنی ہوتی ہیں۔ ہر جھگی میں ایک بستر اور ایک چھوٹے سے کچن کی جگہ ہوتی ہے۔ خاندان کا ایک فرد اس متحرک فارم کی نگرانی کرتا ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
شہر کی زندگی
’رشید‘ میں ماضی اور حال آپس میں ملتے ہیں۔ قرونِ وُسطیٰ سے اس بندرگاہی شہر کو ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہاں تاریخ اور کاروبار ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لوگوں کی زندگی بہت سادہ ہے۔ مصری شہر ’رشید‘ اپنے باسیوں کی خوش اخلاقی اور فراخ دلی کے لیے مشہور ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
خواتین کا کردار
’رشید‘ میں خواتین عام طور پر گھر پر رہتی ہیں، امورِ خانہ داری انجام دیتی ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ وہ روایتی تندوروں میں روٹی بھی بناتی ہیں۔ یہ خواتین بازار میں سبزیاں اور گھر میں تیار کیا گیا پنیر بھی فروخت کرتی ہیں۔ غربت کے باوجود یہاں کے باسی بہت مہمان نواز ہیں۔ بانٹنا اُن کی زندگی کے فلسفے میں شامل ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
تخلیق کی لیبارٹری
ان فوٹوگرافرز کو 2013ء کے موسمِ گرما میں ایک ورکشاپ کے لیے گوئٹے انسٹیٹیوٹ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اب یہ نمائش پہلی مرتبہ جرمن سرزمین پر دکھائی جا رہی ہے۔ سوڈان کے الصادق محمد کو برتن بنانے کے فن سے بہت دلچسپی ہے۔ نیل کے ساتھ ساتھ مٹی سے برتن بنانے کی روایت قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ الصادق کے خیال میں اس فن میں فنکار اور اُس کی تخلیق میں بہت گہرا ربط ہوتا ہے۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
زندہ دریائے نیل
دریائے نیل کے ساتھ ساتھ صدیوں سے برتن بنانے کی روایت چلی آ رہی ہے۔ اسوان ڈیم بننے تک یہ حال تھا کہ دریا میں آنے والا سیلاب اپنے ساتھ زرخیز مٹی لاتا تھا۔ خاص طور پر آج کل کے حالات میں پانی بہت ہی قیمتی چیز بن چکا ہے۔ یہ دریا مصری سرزمین کے لیے حیات بخش عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلسل تبدیلی کی بھی علامت ہے۔ لوگ آبی وسیلے کے ساتھ ساتھ نقل و حمل اور توانائی کے لیے بھی نیل پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
انتہائی قدیم روایات
مٹی سے بنے برتن کارآمد بھی ہوتے ہیں اور خوبصورت بھی۔ صدیوں کے سفر میں اس فن میں نئی نئی اشکال وجود میں آئی ہیں۔ آج کل نُوبیا کے علاقے میں بننے والے برتن دنیا بھر کے عجائب گھروں اور نمائشوں کی زینت بنتے ہیں اور سوڈان کے اس علاقے کی ثقافت اور تاریخ کی وہ داستانیں سناتے ہیں، جن پر نیل کی بہت گہری چھاپ موجود ہے۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
نیلے دریا کے کنارے عاجزی کے سبق
بروک زیرائی مینگستُو کے ہمراہ ہم نیل کے اس سفر میں ایتھوپیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایتھوپیا میں جنم لینے والے اس نیلے دریا کے ساتھ ساتھ انتہائی ابتدائی دور کی مسیحیت سے جڑی انجیل کے طالب علموں کی ایک کمیونٹی ملتی ہے۔ روحانی مرتبہ حاصل کرنے اور لوگوں کے مسیحا بننے کے لیے یہ طلبہ معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ طلبہ اپنی تنہائی کا راستہ خود چنتے ہیں اور ان کی تعلیم چَودہ برسوں میں مکمل ہوتی ہے۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
انجیل کے طالب علم
وقتاً فوقتاً یہ طالب علم اپنی تنہائی سے نکل کر قریبی دیہات کا رخ کرتے ہیں تاکہ اپنے لیے خوراک مانگ کر لا سکیں۔ گداگری اُنہیں عاجزی سکھاتی ہے۔ اِن طالب علموں کا عقیدہ ہے کہ عاجزی روحانی قوت کا سرچشمہ بنتی ہے۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
یکتائی اور ابدیت
دریائے نیل کا ایتھوپیا میں واقع حصہ یکتائی اور ابدیت کی علامت ہے۔ شہروں سے دور یہ نیلا دریا وسعت اور سکون کا احساس دیتا ہے۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ خرطوم کی ورکشاپ کے شرکاء اپنے اپنے ملکوں کے سفر پر گئے، جن میں بہت سے آج کل جنگوں اور تنازعات کی زَد میں ہیں۔ متاثر کن تصاویر کی یہ نمائش ستائیس مئی تک جاری رہے گی۔